نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سول بالادستی کا خواب ‏۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

‏حقیقی نمائندہ حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مسائل کا حل نہ ہونا اور عوام میں مایوسی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔

‏پاکستان کو معرض وجود میں آئے تہتر برس ہونے والے ہیں۔ پہلے دن سے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہو گا، آئین پاکستان کے مطابق بھی یہی نظام پاکستان کا طرز حکومت قرار دیا گیا ہے۔ جس پر عوام کی ایک بڑی اکثریت اور تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں متفق بھی ہیں۔ وقتا فوقتا بعض حلقوں میں صدارتی نظام حکومت کے مروڑ بھی اٹھتے رہتے ہیں اور یہ حلقے یا مائینڈ سیٹ وہی ہے جو ایوب خان کی فوجی حکومت کے صدارتی نظام اور بعد میں ضیاالحق اور مشرف کی فوجی حکومتوں کے حمایتی یا دست و بازو بنے رہے ہیں۔

ہمسایہ ملک یا ہمارا رقیب روسیاہ بھارت جس کے ساتھ ہر کام میں ہم ایک مقابلے کی فضا میں رہتے ہیں پہلے دن سے ایک مضبوط جمہوری نظام حکومت پر قائم ہے جس میں انہوں نے ایک دن بھی کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارت میں ادارے بھی مضبوط ہیں، حکومتی امور میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار صفر ہے اور صحیح معنوں میں سول حکومت کی بالادستی قائم ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے ہاں دیکھیں تو تیس اکتیس سال تو ہم براہ راست فوجی حکومتوں کے زیر اثر رہے۔ ایک لمبے عرصے تک رہنے والی فوجی حکومتوں کے باعث پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی مضبوط نہیں ہو سکی اور بظاہر جمہوری حکومتیں بھی در پردہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی آشیرباد سے اقدار میں آتی رہیں اور اگر کبھی اس دوران کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت بھر پور عوامی دباؤ کے باعث برسر اقتدار آ بھی گئی تو یا تو اسے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی یا اگر ایسی حکومت کسی طرح حکومتی مدت پوری کر بھی گئی تو پس پردہ ریشہ دوانیوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور طاقتور اداروں کی طرف سے مداخلت کا سلسلہ بھی ختم نہ ہو سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی حقیقی معنوں میں سول حکومت کی بالادستی قائم نہ ہو سکی۔ اب ان طاقتور اداروں کو آپ اسٹیبلشمنٹ کا نام دے لیں، خلائی مخلوق کہہ لیں یا پس پردہ موجود فیصلہ ساز قوتیں کہہ لیں بات ایک ہی ہے۔

‏حقیقی نمائندہ حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مسائل کا حل نہ ہونا اور عوام میں مایوسی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ عوام کے ذہن میں یہ رائے پختہ ہو چکی ہے کہ حکومتوں کا ادل بدل سیاسی عمل کے ذریعے کم اور پس پردہ موجود فیصلہ ساز قوتوں کی پسند نا پسند کے ذریعے زیادہ ہوتا ہے۔ آج کا میڈیا اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ کوئی بھی خبر عوام کی نظر سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ اس لئے عام آدمی بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ کیسے لاڈلے اور سلیکٹڈ حکمرانوں کو اقتدار میں لایا جاتا ہے، کیسے ان کی تمام نالائقیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے، کیسے ان کو احتساب سے بالاتر قرار دے کر ان کی کرپشن پر تمام اداروں کی آنکھیں بند کر دی جاتی ہیں، کیسے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ اس نام نہاد جمہوری سلیکٹڈ حکومت کے پیچھے بیٹھ کر اصل حکومت چلائی جا سکے۔ بظاہر ایک جمہوری چہرہ عوام کے سامنے رہے جو بظاہر ایک منصفانہ لیکن درحقیقت انجنئیرڈ الیکشن کے ذریعے سلیکٹ کیا جاتا ہے۔ ایسی سلیکٹڈ حکومتوں کو چونکہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آئی ہیں اور نہ ہی کل وہ عوام کے ووٹ کی محتاج ہوں گی اس لئے عوامی مسائل کے حل سے زیادہ وہ اپنے سلیکٹرز کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہوتی ہیں اور عوامی مسائل ان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

‏آدھی تیتر آدھی بٹیر ٹائپ سلیکٹڈ حکومتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی مسائل حل نہ ہونے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جس کی ذمہ داری اور ناکامیوں کا ملبہ سیاستدانوں اور اور اس سلیکٹڈ حکومت پر ڈال کر نیا لاڈلہ یا نیا سلیکٹڈ تلاش کر لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ بہت سارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بھی ہر وقت کال کی منتظر رہتی ہیں کہ کب طاقتور حلقوں کی نظر کرم ہو اور وہ ان کی مدد سے اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہو سکیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے جمہوری اقدار اور اصولوں پر سمجھوتہ ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو ہواؤں کا رخ پہچان لیتے ہیں اور ہر الیکشن ایک نئی سیاسی جماعت کی طرف سے لڑتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ہر طالع آزما اور غیر جمہوری قوت کے آلہ کار بننے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں یہی لوگ حقیقی نمائندہ حکومت اور سول بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

‏سول بالادستی پاکستان کے لئے ایک ایسا خواب بن چکا ہے جو تہتر سال گزرنے کے باوجود شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ عام پاکستانی یہ سوچنے میں بالکل حق بجانب ہے کہ کیا کبھی اس کا ووٹ اتنا طاقتور ہو سکے گا یا اس قابل ہو سکے گا کہ اس کو چوری نہ کیا جا سکے؟ کیا مہذب دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی کبھی صحیح معنوں میں منصفانہ الیکشن ہو سکے گا جس کے نتیجے میں عوام کے حقیقی نمائندے برسراقتدار آ کرصحیح معنوں میں سول بالادستی پر مبنی حکومت قائم کر سکیں گے؟

About The Author