زمین، زبان اورجسم بکتے ہیں۔فصلیں نیلام ہوتی ہیں۔ زبان،شاعری، کتاب، موسیقی اور فلموں کی صورت بکتی ہے۔جسموں کی تجارت ہوتی ہے ۔سامراج اور سرمائے کی دنیا میں انسان ، منڈی کا مال ہیں۔استعمار طاقت کے زور پر ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتا ہے، منڈی لگاتا ہے۔
مغل عہد کا سماج بنیادی طور پر زرعی اور pastoralتھا۔جنگ ،قبضہ گیری، سلطنت سازی کے لئے ضروری تھی۔کھوپڑیوں کے مینار اور حرم سے ہیرو کے قد کی پیمائش ہوتی تھی۔ٹرمپ ،جانسن،اربان، اردگان،مودی اور خان کا شکریہ کہ کارلائل کے ہیروز اور ہیرو پرستی کا خاتمہ کرتے ہیں۔غلطی کرکے اس پر اصرار کرتے ہیں۔پرانے ہیرو بھی خطا کے پتلے انسان تھے! شاہ عنایت کے زمانے میں، زمین کی ملکیت چار قسم کی تھی۔سبط حسن کے مطابق پہلی قسم کی زمین بادشاہ کی ملکیت تھی۔ اس کی دو قسمیں تھیں، ایک خالص بادشاہ کی ملکیت تھی اور اس کی آمدنی بادشاہ کے خزانے میں جاتی تھی۔شاہی زمین کی دوسری قسم سے عمال اور کچھ فوجیوں کی تنخواہوں کو جاتی تھیں۔دوسری قسم درباریوں کی جاگیریں تھیں جو ان کی موت پر بادشاہ کو واپس ہو جاتی تھیں۔زمین کی تیسری قسم مدرسوں،علماء اور خانقاہوں کے لئے وقف تھی کہ بادشاہ ، ملا اور خانقاہ کی تثلیث پرانی ہے۔زمین کی چوتھی قسم دیہات کے جاگیرداروں کی ملکیت تھی اور جاگیردار کا ماڈل بادشاہ تھا۔وہ چھوٹے بادشاہ تھے! وہ لڑائیاں لڑتے، شکار کھیلتے، حرم سجاتے ، مجرے کراتے، کتے لڑاتے اور ملا اور خانقاہ کی سرپرستی کرتے تھے۔صوفی شاہ عنایت اس اتحاد کے خلاف ہاریوں کے مرشد تھے۔ زمانہ خراب تھا اور وہ وقت سے پہلے آئے تھے۔اس لئے استعمار، جاگیردار اور رجعت پسند طبقے ان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے!
شاہ عنایت کا نعرہ جو کیہڑے سو کھائے ، بادشاہ اور جاگیردار کے فلسفے کی نفی تھا کہ ہاری بوئے گا،بادشاہ کھائے گا، جاگیردار اٹھائے گا۔پندرھویں صدی میں ٹھٹھہ کے سید محمد جونپوری کچی بستیوں میں رہنے اور زندگی کی ضروریات شیئر کرنے کی تعلیم دیتے رہے تھے۔بلوچستان کے قبائلی سماج میں زمین قبیلے کی ملکیت رہی ہے۔اس لحاظ سے شاہ عنایت کا فلسفہ ماضی کی روایت سے اجنبی تو نہ تھا مگر یہ ماضی کے جغرافیے کے حاشیے پہ تھا۔شاہ عنایت انفرادی ملکیت ختم کر کے اجتماعی ملکیت کے پرچارک تھے۔انھوں نے اپنی زمین ہاریوں کو دی اور ان کو کہا کہ وہ مل کر کام کریں اور فصل کی پیداوار آپس میں بانٹ لیں۔تجربے کی کامیابی سے مقامی زمیندار گھبرا گئے۔مغل صوبیدار میر لطف علی خاں سے شکایت کی گئی مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا کہ شاہ عنایت نے اپنی زمین ہاریوں کو دی تھی۔ پرائیویٹ ملیشیا کے ذریعے کمیون کا گھیراو کیا گیا مگر رجعتی، فقیروں سے شکست کھا گئے۔کچھ فقیر مارے گئے جن کے بارے میں شاہ عنایت نے مغل دربار سے شکایت کی۔اور بادشاہ نے قاتلوں سے زمین کی صورت خوں بہا لے کر مقتولوں کے ورثا کو دیا۔اس سے کمیون کی زمین، وسعت اور طاقت میں اضافہ ہوا۔ تاجپور کے ولی محمد لغاری، قطب الدین جہانیاں، فقیر دریا خاں، صوفی صادق فقیر اور روہڑی کے جان علی رضوی جیسے لوگ شاہ عنایت کے ساتھ تھے اور ان کے خلاف پیر عبدالواسع شاہ، ہمل جت اور نور محمد پلیجو وغیرہ تھے۔عبدالواسع شاہ،قریب کے سید تھے۔شاہ لطیف نے اپنے پڑدادا عبدالکریم بلڑی کا مزار بنواتے تھے۔وہ ملتان سے رنگین اینٹیں لائے، ایک اینٹ پر انھوں نے "لطیف”لکھوایا(ملتان سے شاہ لطیف کا رشتہ عقیدت کا تھا)اور اپنے شاعر پردادا کی قبر کے قدموں میں یہ اینٹ لگوا دی۔واسع شاہ نے وہ اینٹ چوری کر لی تھی۔ حسد، حرص اور ہزیمت کے مارے یہ بونے شاہ عنایت کے دشمن تھے اور صوبیدار اعظم خاں کو شاہ عنایت کی شکایت کرتے تھے۔آخر کار اعظم خاں فرخ سیرکے حکم سے مغل فوج اور مقامی زمینداروں کے جتھوں کے ساتھ جھوک پر حملہ آور ہوا۔یار محمد کلہوڑا کی فوج ساتھ تھی۔ دو یا چار مہینے جھوک کا محاصرہ رہا مگر شاہ کے فقیر نا قابل_ شکست تھے۔اس پر میر شہداد تالپور نے قرآن پاک کو ضامن بنا کر جنگ بندی اور مذاکرات کا معاہدہ کیا۔قرآن کو استعمال کرنے کی اموی روایت دہرائی گئی۔شاہ کے مرید انھیں روکتے رہے مگر صوفی جنگ بندی کر کے مذاکرات کے لئے ٹھٹھہ روانہ ہو گیا۔مغل، ملا، کلہوڑا اتحاد ظلم پہ قائم تھا۔ صوفی کو شہید کیا گیا اور سر کوفہ کی بجائے دلی بھیجا گیا۔ "بے سر نامہ”ٹھٹھہ سے دلی کے درمیان تخلیق ہوا۔جھوک میں قتلِ عام شروع ہوا اور شاہ کے چوبیس ہزار فقیر گنجِ شہیداں میں خاک و خون کی چادر لپیٹ کر سو گئے۔جھوک میں سات اجتماعی قبریں ہیں اور ہر ایک کو گنجِ شہیداں کہتے ہیں۔ان قبروں میں ہاریوں کے خواب اور بخت سوتے ہیں۔شہادت سے پہلے شاہ نے کہا:
میری زندگی خدا کی راہ میں چلی گئی
سچ ہے کہ میرا سر وبالِ دوش تھا!!
طلسماتی شاہ لطیف نے شاہ عنایت کو خراج پیش کیا۔پروفیسر ناگپال نے ترجمہ بھیجا:خالی اوطاقوں سے کسی طالب کی صدا نہیں آتی کہ وہ بدیس کو روانہ ہوئے۔ ویران ڈیرے دیکھ مرتا ہوں کہ وہ جو مردہ روح کو بیدار کرتے تھے وہ لاہوتی چلے گئے!
اہلِ دل صوفیوں کی تین قسمیں بتاتے ہیں۔درباری صوفی،تارک الدنیا صوفی اور انقلابی صوفی۔ شاہ عنایت انقلابی تھے۔جی ایم سید انھیں سندھ کا پیامبر کہتے ہیں۔وہ انسانیت اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ یاتری وحدت الوجود کا سوچتا تھا کہ شاہ عنایت اور اعظم خاں، یار محمد کلہوڑا اور شہداد تالپور میں وجود کی وحدت کیسے قائم ہے؟خاک کی عالمِ پاک سے کیا نسبت ہے؟ شاہ عنایت دنیاوی معاملات میں سیکولر تھے اور خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کے قائل نہیں تھے۔انسانوں میں مساوات اور بھائی چارے کے داعی تھے۔وہ وقت سے پہلے آئے جب سندھ کا زرعی اور قبائلی سماج ان کی فکر کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔مگر ان کی تحریک نے سندھ کو دنیا کی انقلابی فکر کے نقشے پر روشن تر کر دیا۔1917کے بالشوک انقلاب سے دو سو سال پہلے 1717کی جو بوئے وہ کھائے کی تحریک ایک کرشمہ تھی۔ شاہ عنایت کی شہادت کے 250سو سال بعد موہن جو ڈارو کے ایک اور بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی،کپڑا اور مکان کے منشور سے غریب کے دل میں امید کا چراغ جلا کر موت کو آواز دی تھی کہ رجعتی سماج اور سامراج ، ملا و پیر، غریب کی بات کرنے والے کو مارنے کا پیشہ کرتے ہیں!شاہ عنایت کے قاتل تاریخ کے کوڑے کا رزق ہیں اور سوشلسٹ صوفی کو ہمیشگی ہے۔جھوک کے گورکن نہیں جانتے تھے کہ غریبوں کے لئے مرنے والوں کی جھوک دائم آباد رہتی ہے۔عشق مرتا نہیں ہے، حق سدا موجود رہتا ہے:
دل و جاں شہیدِعشقت، بہ درونِ گورِقالب
سوئے گورِ ایں شہیداں، بہ گذر زیارتے کن
(میرے جسم کی قبر میں میرے دل و جاں کے لاشے پڑے ہیں۔کبھی ان شہیدوں کی قبروں کی طرف آ اور ان کی زیارت کر)
شاہ عنایت کے مزار کی زیارت نے میرا دل زندہ کر دیا تھا، جسم چور تھا۔ مزار پہ کھڑا یاتری اپنے ساتھ کھڑے شخص کے لئے دعا مانگتا تھا جس کا دایاں بازو مڑا ہوا تھا اور بائیں ٹانگ پر گھٹنے سے نیچے زخم تھے۔ شاہ عنایت کی موت نے ہاریوں کے ہاتھ توڑ دیئے تھے۔زیریں سندھ میں اس وقت کوئی بیس لاکھ ہاری ہیںجن کے ہاں کبھی صبح تو کبھی شام نہیں ہوتی!مسعود کھدر پوش کی ہاری رپورٹ پر گرد جمی ہے! میرے دل میں اداسی کی لہر اٹھتی تھی اور سندھ کی اداس وادی میں اک اداس مزار پر اداس یاتری کی زبان چپ اور آنکھیں بولتی تھیں۔مجھے کسی کرامت کی تلاش تھی جو میرے ساتھ کھڑے مریض کو شفا دے دے یا شاہ عنایت مزار سے باہر آکر اس کے دکھ سن لیں۔ مزار سے باہر آیا تو گرمی اور مونجھ نے تھکا دیا تھا۔گاڑی چلی تو میری منزل مائی کلاچی کی بستی تھی! اچانک ذہن کے افق پر کچھ نام چمکے ،جیسے شاہ عنایت پوچھتے ہوں!”جنرل ہوش محمد شیدی، ہیمو کالانی اور روپلو کولہی کو جانتے ہو؟”سندھ کے سورماوں کے فہرست مختصر نہیں، طویل ہے۔منصور دسویں صدی کے شروع میں سندھو کے کنارے گھومتے رہے اور 922ء میں بغداد میں شہید ہوئے۔سرمد رو بہ زوال ٹھٹھہ سے دلی گئے اور لا الہ سے الااللہ کے سفر میں سر دے بیٹھے۔انھیں 1661ء میں دلی میں شہید کیا گیا تو شاہ عنایت سات سال کے تھے!شہیدوں کی سمرن میں ایک اور موتی پرونے کا وقت تھا،نخلِ دار پہ ایک اور سر کا بار آیا تھا:
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر
سرِ منصور ہی کا بار آیا
گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے فیس بک کھولی تو ایک دوست نے پانچ جولائی کے حوالے سے پوسٹ لگائی تھی۔گنجِ شہیداں کی زیارت اور پانچ جولائی، عجب المیاتی اتفاق تھا کہ شاہ عنایت کی شہادت کے 259 سال بعد پانچ جولائی کے دن ہاریوں کی جھوک کا پھر محاصرہ ہوا تھا!
شاہ عنایت کا نعرہ جو کیہڑے سو کھائے ، بادشاہ اور جاگیردار کے فلسفے کی نفی تھا کہ ہاری بوئے گا،بادشاہ کھائے گا،
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر