نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’تشدد سہنے کی بجائے طلاق لے لیتی تو ماری نہ جاتی‘‘۔۔۔عامر حسینی

اکثر جن گھروں میں بھائی شادی شُدہ ہوجائیں اور بال بچے دار ہوں تو خود ان کی بیویاں شوہر کی بہن کے گھر بیٹھ جانے کو برداشت نہیں کرتیں-

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ

"سوشل میڈیا کے زریعے مرد و خواتین میں جو رشتے بنتے ہیں وہ ناپائیدار ہوتے ہیں”

کچھ کہہ رہے ہیں:

“تشدد سہنے کی بجائے طلاق لے لیتی تو ماری نہ جاتی”

پہلا جُملہ فوری یہ بات ذہن میں لاتا ہے کہ جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو کیا تب مرد اور عورت کے درمیان پسند کی شادی ہمیشہ کامیاب رہتی تھی؟ اور سوشل میڈیا سے ہٹ کر آج کے دور میں کیا پسند کی سب شادیاں کامیاب رہتی ہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا سے پہلے اور بعد میں ارہنج میرج سب کی سب کامیاب رہا کرتی تھیں؟

اور سوال یہ کہ کیا ارینجڈ اور پسند کی شادی والے گھروں میں خودکُشی یا قَتل کے واقعات نہیں ہوا کرتے تھے؟

آخری سوال یہ کہ گھروالوں کا دیکھ بھال کر کیے گئے رشتے اور لڑکی کا اپنا پسند کردہ رشتے میں کیا سوشل میڈیا سے پہلے مرد دھوکہ باز، فراڈیا،زانی، بلیک میلر، اذیت پسند نہیں نکلتے؟

شوہر ظالم ہو، یا اُس کی ماں، باپ، بہنیں، بھائی…… ہمارے ہاں مجموعی طور پر اکثر بیٹی/بہن کو یہ صلاح دی جاتی ہے کہ وہ جیسے بھی ہو نباہ کرے……

اکثر لڑکی کے گھر والے ایسا کیوں کرتے ہیں؟

اس لیے کرتے ہیں کہ بیٹی یا بہن سسرال کے ظلم سے تنگ آکر اگر اپنے ماں باپ یا بھائی کے گھر آکر بیٹھ جائے تو سارا کنبہ، برادری، اڑوس پڑوس اور ہر ملنے جلنے والا یہ سوال کرتا ہے کہ

بیٹی گھر کیوں بٹھائی ہوئی ہے؟

اکثر جن گھروں میں بھائی شادی شُدہ ہوجائیں اور بال بچے دار ہوں تو خود ان کی بیویاں شوہر کی بہن کے گھر بیٹھ جانے کو برداشت نہیں کرتیں-

پسند کی شادی میں تو اکثر باپ اور بھائی جھوٹی غیرت کا بہانہ کرکے ہر قسم کی ذمہ داری سے خود کو الگ کرلیتے ہیں- اور اخلاقیات کے کوڑے اٹھائے سماج بھی تاک میں رہتا ہے کہ کب وہ عورت گرے اور کب وہ اُس کے فیصلے کی سزا اُسے دے-

ایک عورت الگ کردیے جانے، سماج میں اچھوت بن جانے، بھیڑیوں کے لیے آسان شکار ہونے اور سب سے پڑھ کر دودھ کی جلی ہوکر چھاجھ سے بھی ڈرنے والی ہوتی ہے-

یہ ہماری خارجی سماجی حالت ہے جو اکثر عورتوں کو بولڈ فیصلہ لینے کی بجائے گھُٹ گھٹ کر مرنے کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے

About The Author