اپنی بھتیجی کی وفات کے سلسلے میں دھریجہ نگر خان پور آیا ہوا ہوں، تعزیت کیلئے آنے والے تمام احباب کا شکر گزار ہوں،خانپورضلع بحالی کے احباب بھی تشریف لائے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ خان پور ضلع بحالی کی تحریک عرصہ تیس سال سے چل رہی ہے،ہمارے دوست مرزا صلاح الدین تحریک چلاتے چلاتے بوڑھے ہوگئے، چند سالوں سے میرے قریبی عزیز زاہد چوہدری،حبیب اللہ خیال اور آصف دھریجہ نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے،
صوبے میں نئے اضلاع کی خبر پر یہ تحریک متحرک ہوچکی ہے ،زاہد چوہدری نے بتایا کہ ایک وقت خان پور ریاست بہاولپور کا خوشحال ترین ضلع تھا،مولانا عبیداللہ سندھی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک خانپور سے شروع کی تو انگریزوں نے خان پور کو 1935ء میں ضلع سے تحصیل بنوادیا اور نئے آباد ہونیوالے شہر رحیم یار خان کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ زاہد چوہدری کی بات درست ہے کہ آزادی مانگنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے مگر حیرانی اس بات کی ہے کہ انگریز سامراج چلا گیا اس کے غلط فیصلوں کو کیوں برقرار رکھا جا رہا ہے،
دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ خانپور ضلع بحالی کیلئے زاہد چوہدری اور دوسرے احباب کوشش کر رہے ہیں۔ خان پور سے منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی کیوں خاموش ہیں؟وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کا حلقہ خانپور تحصیل میں بھی آتا ہے،آج اقتدار ان کے پاس ہے تو وہ اس سلسلے میں پیش رفت کریں تو انکو حلقے کے لوگ آنر دیں گے، صوبے کی بات پر مخدوم خسروبختیار کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہیں لیکن خان پور ضلع بحالی تو اسمبلی کے بغیر ہی ہوسکتی ہے۔
خان پور کیلئے انگریز کی ترقی معکوس کی سرخ لکیر کو مٹانے کی ضرورت ہے کہ خانپور میں دو صنعتی ادارے تھے۔ایک ٹیکسٹائیل جوکہ بند ہوچکا ہے البتہ حمزہ شوگر ملز پوری توانائی کے ساتھ چل رہی ہے۔خان پور کو ضلع،ریلوے کاہب اور سی پیک کی معرفت ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے موزوں ترین جگہ ظاہر پیر ہے۔
خان پور کی تجارت براہ راست دہلی سے تھی اور خان پور کے کسی ایک سیٹھ کا ’’ٹیبھوں‘‘ آج کا ٹریول چیک تھا اور ایک ’’ٹیبھوں‘‘ کے دریعے دہلی سے لاکھوں کا مال مل جاتا تھا۔
خان پور سے ریلوے ٹرین براستہ سمہ سٹہ بہاولنگر امروہہ وبٹھنڈہ دہلی تک جاتی تھی‘ خان پور کے لوگ بہت خوشحال اور مالدار تھے مگر خان پور سے سب کچھ چھین لیا گیا آج خان پور کے امیر لوگ کراچی میں مزدوری کررہے ہیں اور یہاں کی عورتیں کراچی کے سیٹھوں کے گھر ’’ماسیاں‘‘ بنی ہوئی ہیں۔
خان پورکے لوگوں کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرانے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی اور انہیں اپنی قوت بازو پر انحصار کرنا ہوگا‘ حکمرانوں سے خیرات نہیں بلکہ اپنے حق کو مانگنا ہوگا۔ خان پور وسیب کا زرخیز اور مردم خیز خطہ ہے‘
اس خطے نے حضرت خواجہ غلام فریدجیسی عظیم ہستی کو جنم دیا‘ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز بھی خان پور تھا اور تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مولانا عبید اللہ سندھی نے یہیں سے انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی‘ حضرت سندھی آج آسودہ خاک بھی خان پور میں ہی ہیں۔
خان پور کی سر زمین نے عظیم روحانی پیشوا حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری‘ مولانا عبدالہادی‘ مولانا سراج احمد مکھن بیلوی‘ حضرت سراج اہلسنت مفتی واحد بخش‘ مولانا عبداللہ درخواستی‘ مولانا عبدالشکور دین پوری‘ مولانا یار محمد دھریجہ‘ بابا امان اللہ دھریجہ‘ مولانا عبدالغنی جاجروی‘ مولانا خورشید احمد فیضی‘ خواجہ محمد یار فریدی‘ خواجہ دْر محمد کوریجہ‘ حضرت جیٹھہ بھٹہ سرکار‘ حضرت شیخ عبدالستار‘ حضرت بابا رنگیلا شاہ‘ مغل بادشاہ کے مشیر بیربل۔
اسی طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشاہیر کوخان پور کی ماں دھرتی نے جنم دیا۔ خان پور کو تحریک آزادی کا مرکز ہونے کے اعزاز کے ساتھ یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلے وسیب کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی اور یہاں کے ایک سپوت ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاول پور صوبے کیلئے بہت کام کیا اور بعد ازاں بہاول پور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ کا روپ دیکر سرائیکی صوبے کی تحریک میں شامل کر دیا‘
اسی طرح خان پور کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلا اخبار ڈینھ وار ’’جھوک‘‘ سرائیکی شروع ہوا۔ اخبار کے مدیران نے سرائیکی زبان‘ ادب اور سرائیکی تحریک کیلئے جس طرح اپنا تن من دھن حتیٰ کہ اپنی زندگی تک وقف کر کے جو قربانی دی ہے وہ محتاج تعارف نہیں‘ اسی طرح دوسرا سرائیکی اخبار ’’ڈینھ وار ’’سجاک‘‘ جس شخصیت نے شروع کیا ان کا نام ارشاد امین ہے اور ان کا تعلق بھی خان پور کے قصبے چاچڑاں شریف سے ہے۔ خان پور پہلے ضلع تھا اور خان پور کو انگریزوں نے ریلوے کا سب سے بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا گیا اور خان پور چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیاسی مصلحتوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور خان پور کو ضلع سے تحصیل بنا دیا گیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر