ریاست نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ سب سیاستدان ایک جیسے ہیں ۔ کھربہا روپے کی انویسٹمنٹ کی ہے ۔ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی تاریخ کو کس قدر آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ جب وہ اس بات سے اتفاق کر لیتے ہیں ۔ اور اس پر غور کیے بغیر اسے دہراتے دکھائی دیتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو جب چھوڑا تو اس کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ اور کوئی امکان نہیں دکھائی دے رہا تھا کہ ایوب خان جائے گا۔
بھٹو نے کبھی نہیں کہا کہ ایوب خان کو دس دفعہ وردی سمیت صدر منتخب کروا دوں گا۔
بھٹو نے ایوب خان کو چھوڑنے کے بعد جرنیلوں سے مذاکرات نہیں کئے بلکہ ملک کے دانشوروں سے مذاکرات کیے اور ایک نئی سیاسی جماعت کا ڈول ڈالا۔
آج تک کوئی پی پی پی کا دشمن سرکاری افسر ، فوجی افسر یہ الزام نہیں لگا سکا کہ پی پی پی کے بنانے میں اسٹیبلشمنٹ نے کسی بھی قسم کی مدد فراہم کی ۔
1971 کی الیکشن مہم کے دوران بھٹو پر کم ازکم پانچ دفعہ قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اور پی پی پی کے وسائل سے محروم لوگوں کو جگہ جگہ جاگیرداروں اور طاقتور لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔
الیکشن میں فوج کے پسندیدہ لوگوں کا اتحاد انجمن شوکت اسلام کے نام سے قائم کروایا گیا تھا اور انہیں خفیہ اداروں ، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سب نے نقد رقوم اور سہولیات کی صورت میں مدد فراہم کی تھی۔
پی پی پی نے کبھی بھی اقتدار میں آکر اختیارات فوج کی جانب منتقل نہیں کیے ۔ عوام کی جانب ، پارلیمان کی جانب اختیارات کی منتقلی کی جدوجہد کی اور اس جدوجہد میں جان دی ۔ پی پی پی کی قیادت نے ہمیشہ اظہار آزادی رائے کے حق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی
مسلم لیگ نواز کو فوج نے قائم کروایا ، پی ٹی آئی کو فوجی افسروں نے قائم کروایا ۔ دونوں جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو وہ اختیارات کے ارتکاز کی قانون سازی کرتی ہیں۔ فوجی عدالتیں قائم کرواتی ہیں اور میڈیا کی آزادیوں کو سلب کرتی ہیں۔
اس صورتحال میں آپ جیسے لوگ سب سیاستدانوں کو یہ کہیں کہ وہ ایک ہی نرسری سے پیدا ہو کر آئے ہیں تو یہ انتہائی گھٹیا اور لغو بات ہے۔
ایک دوسری بات بھی سمجھ لیں کہ بھٹو نے زمانہ قبل از پاکستان پیپلزپارٹی بطور ٹیکنو کریٹ سکندر مرزا کے دور سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔
بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو کسی بھی وقت فوج کے زیر سایہ کب رہے ؟؟؟؟؟
آصف علی زرداری کا خاندان نسل در نسل فوج مخالف رہا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا مخالف رہا۔
بے نظیر بھٹو نے 21 سال کی عمر میں میں کرنل کا تھپڑ کھایا کہ ان کا کان تا عمر سننے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ۔
اس کے بعد موت تک فوج ان کی مخالفت کرتی رہی۔
اس صورتحال میں بھی جب آپ تعلیم یافتہ اور دانشور دکھائی دینے کی کوشش میں یہ کہتے ہیں کہ ملک میں سب سیاستدان ایک ہی جیسے ہیں یا سب ایک ہی نرسری کی پیداوار ہے تو آپ کی عقل فہم و دانش کے بارے میں سوال اٹھایا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر