پاکستانی وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی اوپر والے سے بڑی فرصت میں قسمت کی تختی لکھوا کر آئے ہیں، یونہی کفران نعمت کرتے ہیں، کہتے ہیں مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ عفت حسن رضوی کا بلاگ
اسلام آباد وزیروں کے لیے مفادات کے شہد کا چھتہ ہے تو صحافیوں کے لیے خبروں کا کارخانہ۔ اس کارخانے میں کچھ صحافی جو یونین لیڈر بن گئے سکون میں ہیں، کچھ مزدور ہیں اور کچھ ہم جیسے شوقین جنہیں خبر نکالنے کی خواہش ٹکنے نہیں دیتی۔ اویس یوسفزئی بھی صحافیوں کے اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس میں مزدور، لیڈر اور شوقین تینوں اقسام کے صحافی موجود ہیں۔ اویس چھوٹی عدالتوں سے بڑی خبریں نکالنے کے ماہر ہیں۔ عمران خان حکومت کے دو برسوں میں اپوزیشن نے کیا کیا؟ اس عمومی سوال کا خصوصی جواب وہی دے سکتا ہے جس کے پاس پکی خبر ہو۔ میں نے پکی خبر والے اویس یوسفزئی سے کہا کہ ایک سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے، آپ حافظے پہ جمی دھول جھاڑ پونچھ کر ملنے آجائیں۔ ہم بیٹھے تو ایک کے بعد ایک معاملہ زیر بحث آیا کہ اگر واقعی اپوزیشن تگڑی ہوتی تو ان دو سالوں یہ کیا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ سوچا ایسے ہی کچھ معاملات آپ پڑھنے والوں کے ساتھ بھی شیئر کیے جائیں۔
اگر الیکشن نہیں سلیکشن ہوا تھا تو چیلنج کیوں نہ کیا؟
اپوزیشن کی ‘مٹی پاؤ‘ حکمت عملی کا آغاز 2018ء کے الیکشن کے فوری بعد اسی وقت ہوگیا تھا جب مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت تمام زخم خوردہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا کہا تھا اور سوائے چند کے مرکزی قیادت غائب ہوگئی۔ الیکشن میں دھاندلی کا واویلا ہوا، منمنی سے آوازوں سے احتجاج بھی ہوا، یہاں تک کہ خود الیکشن کمیشن نے اپنے نئے سسٹم کی کسی حد تک خرابی کا اعتراف بھی کیا مگر اپوزیشن استخارے ہی نکالتی رہی۔ اس وقت اگر واقعی ن لیگ اور پیپلزپارٹی یا مولانا فضل الرحمن کے ان الزامات میں دم تھا تو انہیں پہلے الیکشن کمیشن پھر سپریم کورٹ جانا چاہیے تھا۔ عمران خان کی درخواست پر کمیشن بننے اور چار حلقے کھلنے کی عدالتی نظیر موجود تھی۔ پر یہ نہیں گئے، آج تک سلیکٹڈ وزیراعظم کی گونج تو ہے مگر کوئی ٹھوس مقدمہ نہیں۔
تحریک انصاف پارٹی فنڈنگ کیس
تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف پارٹی فنڈنگ کیس دائر کیا، اب تو یہ کیس بھی سانپ سیڑھی جیسا بن گیا ہے، جہاں کیس سڑھیاں چڑھ کر منزل تک پہنچنے ہی والا ہوتا ہے کہ کوئی سانپ نگل لیتا ہے۔ یہ کیس تحریک انصاف کے سر کا درد ہے لیکن تسلی رکھیں یہ درد اپوزیشن نے نہیں دیا۔ اپوزیشن کو یہاں اکبر ایس بابر کا کندھا ملا ہوا ہے، یہ صرف بیان داغنے پر مطمئن ہیں۔ اگر اپوزیشن چاہتی تو اس کیس میں پارٹی بن سکتی تھی، اور کچھ نہیں تو ن لیگ کے پاس کیس بنانے اور اسے کھڑا کرنے کے لیے وکلا کی کمی نہیں۔
پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس
وزیراعظم عمران خان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پی ٹی وی حملہ کیس سمیت دھرنے کے دنوں میں بننے والے چار مقدمات تھے۔ یہ کیسز زیرالتواء ہیں لیکن ہم انہیں ‘تھے‘ اس لیے کہیں گے کیونکہ اب یہ کیسز بوجوہ سرد خانے کی نذر ہو چکے ہیں۔ اویس بتاتے ہیں کہ ان مقدمات میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، عدالت نے انہیں پہلے مفرور پھر اشتہاری بھی کہا، یہاں تک کہ جائیداد ضبطگی کی کارروائی شروع ہونے ہی لگی تھی کہ انہوں نے ضمانت کرالی۔اس کیس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ عمران خان پہ مقدمہ تھانہ سیکرٹریٹ کی مدعیت میں ہوا تھا، عمران خان پانامہ کیس کے سماعت سننے روز تھانہ سیکرٹریٹ کی حدود میں بلکہ تھانے سے چند گز کے فاصلے پر سپریم کورٹ جاتے تھے، مگر جب انسداد دہشتگردی عدالت میں پولیس رپورٹ جمع ہوتی تھی تو اس پہ لکھا ہوتا تھا، ‘ہم ملزم کے گھر بنی گالہ گئے، گیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ ملزم گھر پہ نہیں‘۔ یہ کیسز کوئی معمولی نوعیت کے نہ تھے تاہم خان صاحب کی قسمت اچھی ہے کہ اپوزیشن ایسے کسی بھی معاملے میں سُن ہوئی بیٹھی ہے۔
شوگر کمیشن رپورٹ
خان صاحب کی حکومت کے بنائے کمیشن نے واضح کردیا کہ ملک میں شوگر اور آٹا مافیا کے گینگ میں ان کے قریبی پارٹی رہنما، وزیر و مشیر بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے خلاف شوگر ملز مالکان عدالت گئے جبکہ رپورٹ میں نام آنے کے بعد جہانگیر ترین لندن سدھارے۔ اپوزیشن اور کچھ نہیں تو آرٹیکل ایک سو ننانوے کے تحت حکومت کے خلاف مفاد عامہ کی کوئی درخواست ہی دائرکر سکتی تھی۔ اس فرنٹ پر بھی اپوزیشن گہری نیند سو رہی ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے میں قانونی راستے نظر انداز کرنے کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ خود ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین میں سے بعض شوگر ملز مالکان ہیں۔
فیصل واوڈا کیس
خاں صاحب کی کچن کیبنٹ کے رکن فیصل واوڈا کی مبینہ لندن جائیدادوں اور امریکی شہریت کے معاملے پر ان کے کاغذات نامزدگی خاموش ہیں۔ اویس کے مطابق واوڈا کا معاملہ مس ڈکلیئریشن کا ہے جو کہ تمام ثبوت ہونے کی وجہ سے خاصا مضبوط ہے۔ اس کیس میں کچھ خدائی خدمتگار وکیل تو متحرک ہوئے ہیں تاہم اپوازیشن کی اس معاملے میں دلچسپی بیان بازی اور ٹوئیٹس تک ہی محدود ہے۔
‘ایسیٹ ریکوری یونٹ‘ کی کمزور قانونی حیثیت
عمران خان حکومت نے رولز آف بزنس کے تحت ایک ادارہ بنایا ایسیٹ ریکوری یونٹ، اس یونٹ کا کام غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک بھیجے گئے پاکستانی پیسے کی واپسی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ججز بارہا اس یونٹ کی قانونی حیثیت اور اس کے سربراہ شہزاد اکبر کی تقرری پر سوال پوچھ چکے ہیں۔ اویس اس معاملے کو اپوزیشن کی قسمت قرار دیتے ہیں کہ جو کام ان کے کرنے کا تھا اسے اب عدلیہ نمٹائے گی۔ اب عدلیہ جانے ایسیٹ ریکوری جانے، اپوزیشن صرف بیان دے گی۔
بی آر ٹی ٹھیکے سے لے کر ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ کی تقرری تک کئی اور معاملے بھی ہیں۔ ان دو برسوں میں گل تو اور بھی بہت کھلے ہیں لیکن اپوزیشن آنکھیں موندھے آلتی پالتی مارے یوگا آسن بنائے بیٹھی ہے۔ ایک نیب ہے جو ہر کچھ دن بعد اپوزیشن سے چھیڑ چھاڑ کر کے سیاست کو بورنگ ہونے سے بچا رہی ہے۔ عمران خان صاحب بھی اوپر والے سے بڑی فرصت میں قسمت کی تختی لکھوا کر آئے ہیں۔ یونہی کفران نعمت کرتے ہیں، کہتے ہیں مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ ہم کہتے ہیں شکر کریں کم از کم اپوزیشن تو اچھی ملی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر