مجھ جیسے ’’دوٹکے کے صحافیوں‘‘ کو اس ملک کے ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاست دانوں سے لفافے لے کر جھوٹی خبریں پھیلانے کا عادی مجرم گردانا جاتا ہے۔اس ضمن میں مزید شکوہ یہ بھی ہوا کہ ’’سنسنی‘‘ پھیلانے کی ہوس میں ریاستی امور سے جڑی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔دانستہ نہ سہی غیر دانستہ طورپر دشمنوں کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے والوں کی سہولت کاری سرزد ہوجاتی ہے۔
ربّ کا صد شکر کہ جولائی 2018کے انتخابات کے ذریعے وطن عزیز میں بالآخر عمران خان صاحب کی قیادت میں ایک صاف ستھری حکومت برسراقتدار آئی۔ہمارے اجتماعی Imageکے بارے میں بھی اس نے بہت چوکسی دکھائی۔ ٹی وی سکرینیں ’’تخریب کاروں‘‘ سے پاک ہوکر اب ذمہ دار رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔اخبارات بھی محتاط ہوگئے ہیں۔
غالبؔ اس خوف سے آئینہ دیکھنے سے گریز کرتے تھے کہ ’’مردم گزیدہ‘‘ تھے۔میں نے بھی کوئی فقرہ لکھنے سے قبل سوبار سوچنے کی عادت اپنا لی ہے۔کراچی میں گزری عید سے دو دن قبل پی آئی اے کا ایک طیارہ مگر رن وے پر اُترنہیں پایا۔ ایئرپورٹ کے قریب موجود ایک گنجان بستی پرگرکرتباہ ہوگیا۔وباء کے موسم میں اس حادثے نے دِلوں میں جاگزیں ہوئی اداسی کو مزید ہولناک بنادیا۔
اصولی طورپر جب ایسا حادثہ ہوجائے تو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے غم بانٹنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر مستند ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بھی تشکیل دی جاتی ہے۔وہ بہت لگن سے یہ طے کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ سانحہ کیوں رونما ہوا۔وجوہات کا تعین ہوجائے تو ان سے گریز کو یقینی بنانے کے لئے مؤثر SOPsمرتب کئے جاتے ہیں۔
کراچی میں ہوئے حادثے کے محض چند گھنٹے گزرنے کے بعد مگر روایتی اور سوشل میڈیا میں نظر بظاہر سوچ سمجھ کر بنائی ایک کہانی پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس کے ذریعے پیغام یہ اُجاگر ہوا کہ بدنصیب طیارے کا پائلٹ کراچی میں ہوئے حادثے کاحتمی ذمہ دار ہے۔ہوا بازی سے متعلق امور کی بابت قطعاََ نابلدہونے کے باوجود میں اس کالم کے ذریعے فریاد کرتا رہا کہ حادثے کی حقیقی وجوہات کا تعین کرنے میں ایسی ’’پھرتی‘‘ نہ دکھائی جائے۔
ہوا بازی کے مدارالمہام وزیر ہوتے ہوئے غلام سرور خان صاحب نے مگر پائلٹ کو ذمہ دار ٹھہرانے والی کہانی کو رعونت سے Ownکرنا شروع کردیا۔ان کی جانب سے دئیے بیانات کے بعد مجھ دو ٹکے کے صحافی کی فریاد پر غور کرنے کو تیار کون ہوتا؟ اپنی ’’اوقات‘‘ کو بخوبی جانتے ہوئے بھی لیکن میں دہائی مچاتا رہا کہ حادثے کی حتمی رپورٹ آنے کا انتظار کیا جائے۔محض پائلٹ کو ذمہ دار ٹھہرانے والی کہانی کے ایسے مضمرات بھی نمودار ہوسکتے ہیں جو ہمارے لئے عالمی سطح پر بہت شرمندگی اور نقصان کا باعث ہوں گے۔
کراچی میں ہوئے حادثے کے چند دن بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وزیر ہوا بازی نے ایوان میں کھڑے ہوکر بدنصیب طیارے کے پائلٹ کو ذمہ دار ٹھہرانے والی کہانی کو بہت رعونت سے دہرایا۔ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان کی کہانی برحق تھی۔اسے دہرانے کے بعد مگر ا س بات پر مسلسل اصرار ہرگز ضروری نہیں تھا کہ پاکستان کے کئی پائلٹوں نے ’’جعلی ڈگریاں‘‘ حاصل کررکھی ہیں۔انہوں نے جہاز اُڑانے کے لائسنس بھی ’’جعل سازی‘‘ سے حاصل کئے۔
قومی اسمبلی میں وزیر ہوا بازی کی تقریر سن کر میرا سرچکرا گیا۔خود کو ’’ذمہ دار‘‘ ثابت کرنے کے چکر میں ان دنوں تبصرہ آرائی سے گریز کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔جذبات سے مغلوب ہوا مگر The Nationکے لئے اسمبلی کی کارروائی کے بار ے میں کالم لکھتے ہوئے یاد دلانے کو مجبور ہوگیا کہ غلام سرور خان کے بیان کے بعد اب کوئی عقل کا اندھا شخص ہی پی آئی اے جہاز میں سوار ہونا چاہیے گا۔
انتہائی احترام سے میں نے یہ عرض گزارنے کی کوشش بھی کی کہ غلام سرور خان صاحب وزیر ہوا بازی ہوتے ہوئے پی آئی اے کی ساکھ کا ہر صورت تحفظ کرنے کے پابند ہیں۔پی آئی اے ریاستِ پاکستان کی براہ راست نگرانی میں چلائی جاتی ہے۔اس کے جہازوں کی دُم پر پاکستان کا پرچم چسپاں ہوتا ہے۔اس وجہ سے یہ ہمارا ’’قومی برانڈ‘‘ بھی ہے۔اسے غیر محتاط انداز میں بدنام نہ کیا جائے۔
عمران حکومت کا مگر ایک سوچا سمجھا بیانیہ ہے۔ اس کے مطابق 2008سے 2018تک قائم حکومتیں درحقیقت ‘‘ عادی مجرموں‘‘ کی گرفت میں رہیں۔انہوں نے ہر ریاستی ادارہ تباہ وبرباد کردیا۔ انہیں اپنے نااہل چمچوں سے بھردیا۔پی آئی اے میں بھی ایسی ہی داستان جاری رہی۔قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر موجودہ حکومت کا ہر وزیر اس بیانیے کو بہت شدت سے دہراتا ہے اور عمران خان صاحب سے شفقت بھری داد وصول پاتا ہے۔
عمران حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے وزراء ’’پرچی کے بغیر‘‘ ہر موضوع پر برجستہ بولنے کے عادی ہیں۔عقل کل دِکھنے کے جنون میں یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ چند موضوعات واقعتا بہت ’’حساس‘‘ ہوتے ہیں۔انہیں زیر بحث لانے سے قبل ماہرین کی مشاورت سے مکمل تقریر نہ سہی تو کم از کم Talking Pointsتیار کئے جاتے ہیں۔متعلقہ وزیر کے لئے لازم ہوتا ہے کہ بہت مہارت اور ذہانت سے تیار کردہ ’’سکرپٹ‘‘ تک ہی خود کو محدود رکھے۔
امریکی صدر ٹرمپ’’برجستگی‘‘ کا مجسم نمائندہ ہے۔ اس کے لئے کام کرنے والوں کو اسے یہ باور کروانے میں کئی ماہ لگے کہ اقوام متحدہ یا امریکی پارلیمان کے روبرو خطاب کرتے ہوئے محض پہلے سے تیار کردہ متن کو Prompterکی مدد سے پڑھے۔
ہماری دانست میں ’’منتخب پارلیمان‘‘ محض ’’بدمعاشیہ‘‘ کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔دُنیا مگر ایسے فورم کو بہت سنجیدگی سے لینے کی عادی ہے۔قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کسی محکمے کا وزیر جو بیان دیتا ہے اس کی مستند نقل حاصل کرنے کے بعد کئی ملکوں کے اسلام آباد میں مقیم سفارت کار اس کے ایک ایک لفظ کو کئی بار پڑھتے ہیں۔ان دنوں تو نقل حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ایوان کی کارروائی Live Streamہورہی ہوتی ہے۔ پاکستانی اسے دیکھیں یا نہیں سفارت خانوںمیں اس ضمن میں متعین افراد اسے ریکارڈ بھی کرتے ہیں۔اہم نکات کی ریکارڈنگ کو کئی بار سن کر اپنی حکومتوں کے لئے رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔
سفارت خانوں کے علاوہ رائٹرز اور اے ایف پی جیسی خبررساں ایجنسیاں بھی ہیں۔ Aviation(ہوابازی) ایک بہت بڑا دھندہ ہے۔کراچی میں جو طیارہ رن وے پر اُترنے کے بجائے بستی پر گرا اسے فرانس کی ایک مشہور کمپنی نے بنایا تھا۔اس طیارے کو ائیربس کہتے ہیں۔ دُنیا کے بے تحاشہ ممالک کی سرکاری اور نجی فضائی کمپنیوں نے یہ طیارے خرید رکھے ہیں۔وہ سب انتہائی تجسس سے یہ جاننے کو مجبور تھے کہ حادثے کے وقت طیارے میں ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے نصب ہوا ’’آٹومیٹک لینڈنگ‘‘ والا نظام کراچی میں کارآمد ثابت ہوا یا نہیں۔
گزشتہ ہفتے کے آغاز میں کراچی کے حادثے کی بابت ’’ابتدائی رپورٹ‘‘ تیار ہوگئی تو وزیر ہوا بازی نے اسے قومی اسمبلی کے روبرو رکھ کر ’’تاریخ‘‘ بنائی۔بہتر یہی تھا کہ وہ ’’تاریخ‘‘ بناتے ہوئے فقط حادثے کی جوہات بیان کرنے تک ہی محدود رہتے۔
جوش خطابت میں لیکن وہ ایک بار پھر پائلٹوں کی ’’جعلی ڈگریوںاور لائسنز‘ کا ذکر کرنے میں مصروف ہوگئے۔یہ ارشاد بھی فرمادیا کہ پاکستان کے 800 لائسنس یافتہ پائلٹوں میں سے 262 افراد کی اسناد ’’جعلی‘‘ ہیں۔ایک ’’منتخب ایوان‘‘ میں متعلقہ وزیر کوئی دعویٰ کرتے ہوئے ’’ٹھوس اعدادوشمار‘‘ بھی پیش کردے تو ’’خبر‘‘ بن جاتی ہے۔
دُنیا بھر میں فضائی سفر کی Jet-Setاشرافیہ CNN کو ہوا بازی کے دھندے سے متعلق بہت معتبر گردانتی ہے۔مسلسل دوروز تک وہاں یہ کہانی چلتی رہی کہ پاکستان کے ’’30فی صد‘‘ پائلٹ ’’جعلی اسناد‘‘ کی بنیاد پر جہاز اُڑارہے ہیں
مذکورہ ’’خبر‘‘ کے مضمرات نمودار ہونا لازمی تھے۔ ان ’’مضمرات‘‘ کا ذکر کرنے والے صحافیوں کو لیکن تحریک انصاف کی ’’سپاہ ٹرول‘‘ نے ’’ملک دشمن‘‘ شمارکرنا شروع کردیا۔عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ غیر ملکی فضائی کمپنیوں کے لئے جہاز اُڑانے والے پاکستانیوں کے لئے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ان کی مہارت مسلمہ ہے۔
منگل کی صبح مگر اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے تحریری بیان جاری کردئیے ہیں۔برطانیہ بھی ان کے اتباع کو مجبور ہوا۔ کم از کم آئندہ چھ مہینوں کے لئے PIA کی پروازیں بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر لینڈ نہیں کر پائیں گی۔ ’’چور،لٹیروں اور مافیا‘‘ کے خلاف مگر تحریک انصاف کی جنگ شدومد سے جاری وساری رہے گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر