نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری۔۔۔ عباس سیال

سکھ زمیندار دراصل کئی قسم کی جٹ ذاتوں میں منقسم تھا۔مغربی پنجاب میں کینال کالونیز کے زیعے سکھوں کی آباد کاری کی ابتداء کر دی گئی۔

ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران برٹش پنجاب کی ڈیموگرافی(آبادی) میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔آبادی میں ہونے والی اس تبدیلی کا سب سے اہم عنصر مغربی پنجاب میں بنائی گئی ”ایگری کلچرل کالونیاں“ تھیں جنہیں پنجاب کے دوآب میں نہریں نکال کر خشک اور بنجر زمینوں کو آبادکرکے قائم کیا گیا تھا اور ا س سارے منصوبے کو خطے کے ترقیاتی عمل سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔

مغربی پنجاب کا یہ خطہ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی پنجاب کہلایا۔مشرقی پنجاب کی نسبت مغربی پنجاب کا علاقہ زیادہ تر بارانی تھا جہاں مون سون کی بارشیں ناکافی تھیں جس کی وجہ سے یہاں معقول مقدار تک پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا۔اگرچہ موسم سرما کی بارش سے کبھی کبھار گندم کی فصل اچھی ہو جایاکرتی تھی،مگر چونکہ یہاں کی اکثر زمینیں بارانی اور کچھ چاہی(کنوؤں کے پانی سے سیراب ہونے والی) تھیں،اسی لیے آب پاشی کے اس محدودوسیلے سے وسیع تک زرعی رقبوں کی سیرابی مشکل تھی اورپانی کی کمیابی کے باعث وسیع پیمانے پر پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا۔مغربی پنجاب کا جو حصہ نہری پانی سے سیراب ہوتا تھا وہ ساری نہریں سیلابی تھیں جو ساراسال بہنے کی بجائے زیادہ تر خشک رہتیں اور ان میں پانی اس وقت آتا جب دریاؤں کی سطح طغیانی کے باعث بلند ہو جاتی تھی،لہٰذا ان سیلابی نہروں کے بھروسے پر بھی صرف محدود پیمانے تک کاشتکاری ممکن تھی۔ مغربی پنجاب کی سیلابی نہری علاقوں کے اردگرد یہاں کا ایگری کلچرل طبقہ (مقامی کسان) آباد تھا۔چونکہ ان نہروں کے زیعے بالائی سطح تک پانی پہنچانا ممکن نہ تھا اسی لیے مغربی پنجاب کی بالائی سطح خشک و بنجر رہتی اور ان زمینوں پر کھیتی باڑی کی بجائے یہاں کے مقامی خانہ بدوش اُسے چراگاہوں کے طور پر استعمال میں لایا کرتے تھے۔

برطانوی حکومت نے 1885ء میں مغربی پنجاب کے وسیع تر رقبے پر اپنی نظریں مزکور کیں اور اسے آب پاشی کے قابل بنانے کیلئے نہروں کا جال بچھانے کا فیصلہ ہوا۔برٹش راج کے دوران بننے والی نہریں چونکہ دریاؤں کے بند باندھ کر نکالی گئی تھیں اسی لیے ان میں سارا سال پانی وافر مقدار میں موجود رہتا تھا۔سال بھر بہنے والی ان نہروں سے مغربی پنجاب کے وسیع حصے کو سیراب کرنے کے ساتھ ہی وہاں ”کینال کالونیز“ کے نام سے آبا دکاری کے قیام کو ممکن بنانے کے ساتھ ہی اس خطے کی اقتصادیات میں نمایاں تبدیلی آئی اور یوں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر بند باندھ کر نکالی گئی نہروں کا جال پنجاب اور سندھ تک پھیل گیا،جسے دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا آب پاشی کا منصوبہ کہا جاتا ہے۔

مغربی پنجاب میں نہروں کی فراوانی کی وجہ سے رقبے سیراب ہونے لگے مگر ہنرمند افراد کی کمی کے باعث اتنے وسیع و عریض خطے سے زرعی پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا۔ان علاقوں میں قلیل تعداد میں لوگ آباد تھے اور دوسری طرف سے یہ خطہ لیبر شارٹیج کا شکار تھا۔لہٰذا نئے خطے کو آباد کرنے کیلئے مزدوروں، کاشتکاروں اور ہنرمند افرد کی قلت تھی۔

مغربی پنجاب میں تین قسم کے لوگ آبا دتھے۔ ایک ز میندار طبقہ،دوسرا مزدور کاشتکار(مزارعہ) اور تیسرا چرواہا جن کا کام بھیڑ بکریاں چرانا تھا۔ہنرمندکاشتکار چونکہ قلیل تعداد میں تھے اور وہ پہلے ہی سے جاگیردار طبقے کی زمینوں تک محدو دتھے اس لیے انگریز افسران جاگیرداروں کے مزدوروں کو نئے سیرابی علاقوں میں لے جانے اور ان سے کام لینے میں ہچکچاہٹ محسوص کرتے تھے اور وہ کسی طور بھی جاگیردار طبقے کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے تھے۔اسی لیے نئے آبادکاروں کو بسانے کا فیصلہ ہوا۔

مغربی پنجاب کے علاقے میں نہریں آجانے سے یہاں کے مقامی افراد کی چراگاہیں ختم ہو گئیں اور غیر کاشتکار طبقہ (چرواہے) تتر بتر ہوگیا۔برطانوی حکومت کے زرعی افسران کے مطابق یہ نیم دیہاتی غیر کاشکار لوگ جنہیں وہ جانگلی کہتے تھے چونکہ کاشتکاری سے لابلد تھا اسی لیے ان کے کسی کام کا نہ تھااور انہیں اس خطے میں نقد زر فراہم کرنے والی فصلوں کی پیداوار کو ممکن بنانے کیلئے ہنر مند کسانوں کی ضرورت تھی۔

مغربی پنجاب کے مقامی (جانگلی) کئی قبیلوں میں منقسم تھے۔ان میں سے جو سب سے اعلیٰ و ارفع طبقہ تھا اس کے پاس اپنے مال مویشی،بھیڑ بکریاں،اونٹ وغیرہ تھے۔دراصل کینالز اور کینال کالونیز جن جنگلوں کو صاف کرکے اور دریا کے جن کناروں سے نکالی گئی تھیں وہ سارے علاقے مقامیوں کی ملکیت تھے،مگر نہریں نکلتے ہی مقامیوں (جانگلیوں) کو اپنے علاقوں سے پرے دھکیل دیا گیااور وہ جبراًاپنی چراگاہوں سے محروم کر دئیے گئے۔اس دھکم پیل اور روزگار سے محرومی کے نتیجے میں مقامی جانگلیوں نے نہ صرف برا منایا بلکہ باقاعدہ احتجاج بھی کیا۔مقامی افراد کے احتجاج سے مجبور ہو کر انگریز حکومت نے انہیں قلیل تعداد میں کینال کالونیز سے کچھ رقبے الاٹ کردیئے مگر اس الاٹمنٹ میں بھی صرف وہی مقامی افراد مستحق قرار پائے جن کے پا س اپنے مال مویشی اورا ونٹ تھے جبکہ بقیہ افراد زمینوں پر محنت مزدوری کرکے زندگی بسر کرنے لگے۔برطانوی حکومت نے اپنے طور پر وہاں کی موجود مقامی آبادی کو محفوظ کرلیا مگر اصولاً اور قانوناً ایسا نہ تھا،بلکہ جہاں جہاں سے نہریں نکلتیں وہاں کی ان زمینوں سے نہ صرف جانگلیوں کو نکال دیا جاتا بلکہ ان کے مالکانہ حقوق ماننے سے بھی انکار کر دیا جاتا اور یہ دلیل پیش کی جاتی کہ نا قابل کاشت زرعی رقبہ ہمیشہ سرکار کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔ 

مغربی پنجاب کے نہری رقبوں میں کینال کالونیز بنتے ہی اسے سرکاری زمین کا درجہ دے دیا گیا جسے انگریز سرکار کسی بھی طریقے اور منشا سے الاٹ کیے جانے کا حق اپنے پاس رکھنے کی مجاز تھی، اسی طرح جسے یہ زمینیں گرانٹ کی جاتیں وہ کسی کو بھی بیچ سکتا تھا۔اس طرح نہروں کے زریعے سیراب ہونے والی زمینوں میں کینال کالونیز کے زریعے مغربی پنجاب میں کولونائزیشن پالیسی کا اجراء کر دیا گیا۔اس پالیسی کے تحت برطانوی حکومت نے کچھ ہنگامی اور فوری فیصلے کیے۔

کینال کالونیز بنانے سے قبل ہی انگریز نے برٹش پنجاب میں ایگری کلچرل کاسٹس(زرعی ذاتیں) اور غیر ایگری کلچرل کاسٹس (غیر زرعی ذاتیں) کی درجہ بندی کر دی تھی اور اسی غیر منصفانہ درجہ بندی کے تحت اس نے غیر ایگری کلچرل ذاتوں کو زمین کی تقسیم پر پابندی عائد کردی تھی۔اس کے بعد انگریز حکومت نے ایک ایکٹ بنایا جسے پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کہا جاتا ہے۔اس ایکٹ کے تحت اس نے کینال کالونیز میں غیر ایگری کلچرل ذاتوں پر زمین خریدنے اور ان کو زمین کی الاٹمنٹ پر پابندی عائدکر دی تھی۔پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کے تحت زمینوں کی الاٹمنٹ کو صرف پنجابیوں تک محدود رکھا گیا اور باقی ماندہ صوبوں کے لوگوں کو اس سے محروم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ انگریز وں نے مغربی پنجاب میں جو کینال کالونیاں بنائیں اُن میں ان لوگوں کو بسانے کی کوششیں کی گئیں جن کا تعلق آبادی کے دباؤ والے علاقے سے تھا۔چونکہ مغربی پنجاب کے مقابلے میں مشرقی پنجاب میں آبادی کا دباؤ زیادہ تھا اسی لیے آبادکاری کے دوران ان لوگوں کو مغربی پنجاب میں بسا کر مشرقی پنجاب میں آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔برطانوی حکومت کے اس فیصلے میں سیاسی مفاد بھی پوشیدہ تھا تاکہ مشرقی پنجاب میں اکالی دل اور خلافتی تحریک کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔قیمتی زرعی اراضی کی الاٹمنٹ اور کینال کالونیز میں اقتصادی و سیاسی مقاصد کو کچھ اس انداز میں حاصل کیا گیا کہ جن جن خاندانوں کو زمینوں کی گرانٹس ملیں وہ انگریز سرکار کے ممنون و مشکور اور مزید تابعدار بن گئے۔ اس طرح پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کو مزید تقویت ملی۔

برٹش انڈین آرمی کی ریکروٹمنٹ کیلئے بھی وسطی پنجاب(سکھوں کا علاقہ) اور شمال مغربی پنجاب(مسلم اکثریتی علاقہ)بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔تیسری چیز جو کینال کالونیز میں زمینیں گرانٹ کرتے ہوئے مدنظر رکھی گئی وہ ہنرمند و پیشہ ور کاشتکاروں کا تعین تھا۔

ایک مرتبہ پھر برطانوی حکومت نے سوچا کہ ان زمینوں کو آبا دکرنے اور پیداوار حاصل کرنے کیلئے وسطی پنجاب کے اضلاع کا وہ طبقہ جو وہاں کی زمینوں کا پہلے سے مالک ہے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔اس چیز کو بنیاد بناتے ہوئے زمینوں کی الاٹمنٹ صرف پنجاب کے ان لوگوں تک محدود رکھی گئی جو پہلے سے زمینوں کے نہ صرف مالک تھے بلکہ اس سے مستفید بھی ہو رہے تھے۔اس سفاکانہ قانون کے تحت غیر کاشتکار امیر طبقے پر زمینیں خریدنے پر بھی قطعاً پابندنہ تھی اوروہ سرکاری نیلامی کے زریعے کینال کالونیز کی زمینیں سکتے تھے۔اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کو بھی زمینیں الاٹ کی جاتی تھیں۔اس طریقے سے افسر شاہی کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں اور جو لوگ انتظامی عہدوں پر فائز تھے وہ زمینوں سے فوائد سمیٹنے لگے۔مختصر یہ کہ ان ایگری کلچرل کالونیز سے پنجاب کا وہی طبقہ مستفید ہو اجو پہلے سے کھاتاپیتا، امیر کبیر اور خوشحال تھا جبکہ غریب کو ایک بار پھر کچل دیاگیا۔مغربی پنجاب (سرائیکی علاقوں)کی زمینوں کو حاصل کرنے والوں میں وسطی پنجاب کے پنجابیوں کی اکثریت شامل تھی۔جن میں سے ایک خاص اکثریتی تعداد سکھوں پر مشتمل تھی۔ سکھ زمیندار دراصل کئی قسم کی جٹ ذاتوں میں منقسم تھا۔مغربی پنجاب میں کینال کالونیز کے زیعے سکھوں کی آباد کاری کی ابتداء کر دی گئی۔

جاری ہے۔۔۔۔

About The Author