چولستان کی بعض تنظیموں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں چولستان کی ترقی کیلئے فنڈز نہیں رکھے گئے ، تنظیموں کی طرف سے مطالبہ ہوا ہے کہ چولستان پیاس و افلاس کا صحرا ہے ، اس کی ترقی کیلئے وافر فنڈز رکھے جائیں ۔
میرے کالم کا عنوان ’’ پاکستان کا خوبصورت صحرا چولستان ‘‘ ہے ۔ کہتے ہیں کہ خوبصورتی آنکھ میںہوتی ہے ، دیکھنے والی نظر ہر چیز میں خوبصورتی تلاش کر دیتی ہے ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں وہ خوبصورت ہے ، خواجہ فرید ؒ نے اپنی شاعری میں چولستان کے کانٹوں کو ’’ شمشاد ‘‘ و ’’صنوبر ‘‘ سے تشبیہ دی ہے ۔ خواجہ فریدؒ نے چولستان میں موجود ریت کے ٹیلوں کو ’’ کوہ طور ‘‘ کہا ہے ۔
خواجہ فرید کی ایک کافی ہے ’’میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں ، میڈا دین وی توں ، ایمان وی توں ‘‘ دراصل یہ طویل حمدیہ کافی ہے خواجہ فرید نے ذات باری تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے ، ایک جگہ فرمایا ہے : میڈا ملک ملہیر تے مارو تھلڑا روہی چولستان وی توں چولستان بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔
تاریخی کتابوں حتیٰ کہ بر صغیر کی قدیم کتاب ’’ رگ وید ‘‘ میں بھی چولستان کے دریاؤں کا ذکر موجود ہے۔ آج کا یہ صحرا پہلے دریا تھا اور موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے درمیان وادی ہاکڑہ کی شکل میں یہ خطہ ہنستے بستے شہروں اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا ۔ معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنی تحقیقات میں چولستان میں 13 سو شہروں اور بستیوں کی نشاندہی کی ہے ۔
مگر افسوس کہ چولستان پر کی جانیوالی تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا گیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ چولستان کے حسن کو برباد کرنے کیلئے اور وہاں کے پرندوں اور جانوروں کو قتل کرنے کیلئے لائسنس اور پرمٹ دیئے گئے مگر چولستان کی بہتری اور ترقی کیلئے کوئی بھی قدم نہ اٹھایا گیا ۔
پاکستان کے حصے میں چولستان ہے اور اس سے ملحقہ صحرا راجستھان ہے جو بھارت کے پاس ہے ۔ بھارت نے راجستھان میں ایک بہت بڑی اندرا گاندھی نہر نکال کر اسے سر سبز اور شاداب بنا دیا ہے ، چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ۔
ایک ستم یہ بھی دیکھئے کہ صحرا میں جانور پانی کی خوشبو پر سفر کرتے ہیں ، چولستان کے جانوروں کو راجستھان کی طرف پانی کی خوشبو آتی ہے ، وہ پیاس کی شدت سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگے خار دار تاروں سے ٹکرا کر لہو لہان ہوتے ہیں اور وہیں پر مر جاتے ہیں ۔ ان جانوروں کو کون بتائے کہ باڑ کی دوسری طرف دشمن ملک بھارت کی حدود شروع ہوتی ہیں ۔ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ، یہ صحرا ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ۔
محققین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا ، دریائے گھاگھرا، دریائے ہاکڑہ ، سرسوتی مختلف نام آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی شادابی اور زرخیزی کی بناء پر حملہ آور اس علاقے میںآتے رہے ۔
سکندر آعظم کے یہاں آنے اور خونریزی کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ چولستان کی ریت میں بہت راز ہیں ، چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیں ، چولستان کے جس باشندے سے آپ پوچھیں، وہ کہے گا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر آئے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔
چولستان کے گمشدہ دریا کا قصہ ہر زبان پر ہے۔ چولستان میں خوبصورت تہذیب کے عظیم ترین خزانے دفن ہیں ۔ مدفون خزانوں میں تہذیبی آثار اور ثقافتی علامات تو نظر آئی ہیں مگر ہتھیار نہیں ملے ۔
ابو عبداللہ محمد المعروف ابن بطوطہ مسلمان سیاح تھا ،ا اس نے دنیا کے بیشتر علاقوں کی سیاحت کی ، وہ سیاحت کے سلسلے میں اوچ بھی آیا ، جس میں انہوں نے اس شہر کو علم کا مرکز قرار دیا ۔
اوچ چولستان کے ملحقہ علاقے میں تھا اور یہ سب سلطنت ملتان کا حصہ تھے ۔معروف تاریخ دان پروفیسر جاوید عثمان شامی اپنی کتاب ’’ چولستان کی تاریخ و ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ محمود غزنوی نے 1000ء سے 1036ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کئے ، ان حملوں کا مقصد لوٹ مار اور مال غنیمت سمیٹنا تھا۔ ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ ان کے حملوں سے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی خودمختار مسلم ریاستیں بھی لوٹ مار کی زد میں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ غزنی ان دنوں دنیا کی امیر ترین ریاست بن گئی تھی کہ وہاں بہت زیادہ لوٹ مار کا مال جمع ہوا ۔
محمود غزنوی نے اوچ اور چولستان پر بھی حملہ کیا ، یہ علاقے اس وقت ریاست ملتان کا حصہ تھے اور محمود غزنوی نے ملتان میں ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی ۔ ‘‘ چولستان میں نئے سرے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کی فوری توجہ کی اس بنا پر ضرورت ہے کہ صحرائے چولستان بھارت کا ملحقہ علاقہ ہے ۔
اگر بھارت کے صحرا راجستھا ن میں چولستان کے مقابلے میں کم سہولتیں ہونگی تو احساس محرومی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ، چولستان عظیم تہذیبی و ثقافتی صحرا ہے ، وہاں بسنے والوں کی الگ دنیا ہے، الگ رسم و رواج ہیں ، وہاں کی شادیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ چولستان کے لوگوں کے خوبصورت لباس ان کی خوبصورت تہذیب کو ظاہر کرتے ہیں۔
چولستان کے نباتات پر تحقیق کی جائے تو وہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ایک خود رو خوشبو دار پودے قطرن سے کشید کی جانیوالی خوشبو فرانس کی خوشبو سے اعلیٰ ہے ۔ پہناوے کے ساتھ چولستانیوں کے زیورات بھی الگ ہیں ۔ چولستان کے فنکاروں کی موسیقی دل موہ لینے والی ہے ۔ وہاں پیدا ہونے والا قدیم و جدید ادب اپنی مثال آپ ہے۔
چولستان میں جھوک کے نام سے عارضی ٹھکانے ہیں، وہاں خانہ بدوش بھی ہیں جن کو مقامی زبان میں پکھی واس کہاجاتا ہے ۔ چولستان میں قدیم درگاہیں ہیں اور قلعے اس علاقے کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے اصل حسن کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ،اس مقصد کیلئے عرب شیوخ و دیگر شکاریوں کی چولستان سے بے دخلی ضروری ہے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر