نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میر شکیل الرحمن اور حکمران ۔۔۔ ملک عصمت اللہ

ہر حکمران کی یہ خواہش رہی کہ جنگ میڈیا گروپ کے اخبارات و ٹی وی چینلزپر صرف ان کی خواہش کے مطابق خبروں کو جگہ دی جائے

ایڈیٹر انچیف جنگ جیو نیوز گروپ میر شکیل الرحمن گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے پرائیوٹ پراپرٹی کے ایک کیس میں نیب لاہور کی بلاجواز حراست میں ہیں انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اس کیس میں ایک غیر متاثرہ شخص کی طرف سے نیب کو دی جانے والی ایک درخواست کی تصدیق اور ابتدائی تحقیق کیلئے نیب لاہور کی طرف سے دوسری پیشی کے موقع پر مکمل ریکارڈ کے ساتھ نیب لاہور کے دفتر میں موجود تھے۔

ابتدائی تحقیقات کے مرحلہ پر نیب لاہور حکام کو کس کی ایماء اور کس کی خوشنودی کیلئے چیئرمین نیب کی جانب سے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے آرڈرز موصول ہوئے اس کے بارے میں تو ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن ابتدائی تحقیقات اور اور ایک ایسے شخص کی درخواست پر جس کا اس کیس سے کسی بھی طور پربالواسطہ یا بلاواسطہ طور کوئی تعلق نہیں بنتا کی طرف سے کی جانے والی شکائت کی تصدیق کے مرحلہ پر پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا بھر میں اردو میڈیا کے سب سے بڑے میڈیا گرو پ کے ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری اور تین ماہ سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باجود ان کے خلاف نیب حکام کی طرف سے کسی قسم کا کیس یا ریفرنس بنانے میں ناکامی اور عدالتوں میں کیس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی مواد پیش نہ کرسکنا میر شکیل الرحمن کی بے گناہی اور ان کے خلاف کی جانے والی تما م تر کاروائی کو ذاتی انتقام سے تشبیہ دئے جانے کیلئے کافی ہے۔ اگر ماضی کی طرف نظر دوڑوائی جائے تو موجودہ حکمرانوں سے قبل ماضی کے تمام حکمرانوں خواہ جمہوری حکمران ہوں یا آمرانہ دور حکومت ہو تما م کے تمام جنگ میڈیا گروپ کی آزادانہ اور غیر جانبدارا نہ صحافتی پالیسیوں کی وجہ سے اس گروپ پر نارض ہی دکھائی دیئے اور اپنی ناراضگی کا اظہارکبھی جنگ گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو سرکاری اشتہارات کی بندش اور اس کی اشتہارات کی مد میں حکومتی ادائیگیوں میں روکاوٹ اوردیگر اور کئی طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ کیا جاتا رہا۔

ہر حکمران کی یہ خواہش رہی کہ جنگ میڈیا گروپ کے اخبارات و ٹی وی چینلزپر صرف ان کی خواہش کے مطابق خبروں کو جگہ دی جائے اور ان کے سیاسی مخالفین کو مکمل منوقف اپنے قارئین او ناظرین تک پہنچانے کی بجائے ان کا مکمل بلیک آؤٹ کیا جائے تاکہ سب اچھا ہی دکھائی دے لیکن جنگ میڈیا گروپ کے بانی اور میر صحافت میر خلیل الرحمن کی طرف سے روز اول سے جنگ میڈیا گروپ کیلئے جو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ صحافت کے جواصول وضح کئے گئے ان اصولوں سے نہ تو ساری زندگی خود کبھی انحراف کیا بلکہ اپنے ساتھ کام کرنے والی تمام ساتھیوں کو بھی ان اصولوں کا پابند بنایا اور یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے وقت کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ صحافتی پالیسی کو قائم و دائم رکھا اور یہ جنگ میڈیا گروپ کی اس پالیسی کا ہی ثمر ہے کہ آج جنگ میڈیا گروپ پاکستان کا سب سے بڑا اوردنیا بھر میں اردو صحافت کے میدان میں اپنی غیرجانبدارنہ خبروں اورتجزیوں کے حوالے سے ایک موثر صحافتی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔

ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران یعنی پی ٹی آئی کی حکومت اور اسکی مشیر بھی سب اچھا پر مبنی خبروں کیاشاعت اور ترویج کے خواہشمند ہیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو وہ اپنا حریف سمجھتے ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان اور انکی حکومت کا معاملہ کچھ اور طرز کا محسوس ہوتا ہے اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کریں تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے جب 1992کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد پاکستان میں اپنی والدہ شوکت خانم کے نام سے کینسر ہسپتال بنانے کی مہم کا آغاز کیا تو جنگ میڈیا گروپ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا،زلزلہ متاثرین اور سیلاب زدگان کی مدد کیلئے چلائی جانے مہمات ہوں جنگ میڈیا گروپ اور عمران خان ساتھ ساتھ رہے عمران خان نے 22سال قبل جب اپنے سیاسی سفر کا آٖغاز کیا اور اپنی الگ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی داغ بیل ڈالی تو جنگ میڈیا گروپ نے اپنی غیر جانبدارانہ اور آزاد میڈیا پالیسی کے تحت عمران خان کو بحیثیت پارٹی چیئرمین اور ان کی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کو اپنے گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی سکرین پراسی طرح کوریج فراہم کرنا شروع کردی جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں اورانکے قائدین کو دی جاتی تھی۔ایک لجینڈ کھلاڑی اور پاکستان کی کرکٹ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان ہونے کی حیثیت سے اکثر و بیشترعمران خان کوکچھ زیادہ ہی کوریج مل جاتی جس پر ان کے سیاسی مخالفین اکثر ناراضگی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے۔

جس طرح کی کوریج عمران خان اور انکی جماعت کو جنگ میڈیا گروپ کی طرف سے ملتی رہی اسکا اعتراف خود عمران خان اپنے مختلف میڈیا انٹریوز میں جنگ جیو نیوز کا نام لیکر کرتے رہے اور یہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہیں،2013کے عام انتخابات کے بعد جب عمران خان اور انکی جماعت نے مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے خلا ف دھاندلی کے الزامات لگا کر حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا اور پھر 2014میں لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بہت بڑے عوامی سیاسی جلسہ عام کے بعد لاہور سے اسلام آباد تک حکومت مخالف لانگ مارچ اور بعدمیں اسلام آباد کے ڈی چوک میں طویل دورانیہ کا احتجاجی دھرنادیا گیا تو جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ نے اس ساری ایکٹیوٹی کو میرٹ کے مطابق بھرپور کوریج فراہم کی تاہم خوشامدی مشیروں اور جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ کے روائتی اور ترقی کی دوڑ میں جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ سے ہمیشہ شکست کھاجانے والے راوئتی حریفوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی غلط اور بے بنیاد معلومات کی بناء پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ اور اسکے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو بھرپور ذاتی تنقید کا نشانہ بنایاجس کی تقلید کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنے کی کوریج کیلئے آنے والے والے جنگ جیو نیوز میڈیا گروپس سے وابسطہ صحافیوں جن میں خواتین صحافی کارکن بھی شامل ہوتی تھیں کیساتھ انتہائی ناروا سلوک کا مظاہرہ کیاگیااور ان کی تضحیک کی جانے لگی،جیو نیوز کی ڈٰ ی ایس این جی وین کی توڑ پھوڑ کے کئی واقعات بھی پیش آئے لیکن ان تمام تر واقعات کے باوجود جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ کے اخبارات اور جیو نیوز کی سکرین پر کبھی بھی پی ٹی آئی اور اسکی کی قیادت کا صحافتی بلیک آؤٹ نہیں کیا گیا اور انہیں برابر کوریج فراہم کی جاتی رہی

2018کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران بھی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے ایڈیٹرانچیف جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ میر شکیل الرحمن اور جنگ جیو نیوز کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود انکی انتخابی مہم کو برابری کی بنیاد پر کوریج دی گئی اور حکومت میں آنے کے بعد بحیثیت وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بذات خود کئی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر میڈیا ان کا ساتھ نہ دیتا تو وہ کبھی وزیر اعظم نہ بن پاتے اور نہ ہی انکی پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آتی۔ وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ عمران خان ایک پارٹی سربراہ کی حیثیت سے جو سوچ وہ اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا کے حوالے رکتھے تھے اس میں اب مثبت تبدیلی لیکر آئیں گے اور سب کوساتھ لیکر پاکستان کی تعمیر و ترقی کے سفر کا آگے بڑھائیں گے لیکن ساری کی ساری خواہشیں اور سوچیں دھری کی دھری رہ گئیں جب وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے عمران خان نے اپنے رویہ کو تبدیل نہ کیا اور انہی ناعاقبت اندیش اور خوشامدی مشیروں کو اپنی کچن کیبنٹ کا حصہ بنالیا اور اچھی اور مثبت سوچ رکھنے والے پارٹی ساتھیوں کو سائیڈ لائن کرکے کچن کیبنٹ کے مشیروں کی رائے کو اولیت و اہمیت دیکر معاملات حکومت چلائے جانے کے ساتھ حامی اور مخالفین طے کئے جانے لگے جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ملک کے معاشی، سماجی و سیاسی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں اب ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی،

خوشامدی مشیروں کے اشاروں پر سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے جبکہ میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کیلئے ان پر ہر طرح کا دباؤ استعمال کیا جاتا ہے اور بات نہ ماننے والوں کی ذاتیات کی حد تک تضحیک کی جاتی ہے اور شائد میر شکیل الرحمن کے ساتھ پاکستان کے سب بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ ہونے کے باوجود اسطرح کا ناروا سلوک اسی وجہ سے رواہ رکھا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف اس قدر غیر مہذبانہ رویئے اور تکلیف کے باوجود میر شکیل الرحمن کی نے کبھی بھی اپنے اداروں اور اس کے ساتھ وابسطہ صحافیوں کو ایسی کوئی ہدایت نہ دی گئی ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں اور ان حلیف جماعتوں کی میڈیا کوریج میں کسی قسم کی تفریق پیدا کریں بلکہ جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اسی طرح برابری کی بنیادپر کوریج فراہم کی جارہی ہے اور کسی قسم کی تفریق کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ میر شکیل الرحمن کی بلاجواز گرفتاری کے خلاف اور انکی رہائی کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے حتی کہ کئی غیر ملکی حکومتوں، سیاسی و سماجی صحافتی اور

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے اس گرفتاری پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ دوہرایا گیا ہے لیکن تین ماہ سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود معاملات جوں کے توں کی سطح پر ہیں اور نیب حکام ابھی تک دو لائنوں پر مشتمل ایک الزام بھی نہیں بناسکی جو اس بات کی واضح طور پر غمازی کرتی ہے کہ یہ سارا معاملہ سیاسی و ذاتی اور اس سارے معاملے کے پیچھے یقینی طور پر وہ خوشامدی عناصر ہیں جو ہر دور میں حکومتوں کا کسی نہ کسی طرح حصہ بن کر وزراء اعظم اور انکی حکومتوں کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں اور حکومت وقت کے رخصت ہونے کے بعد آنے والی نئی حکومت کی راہ میں نگاہیں بھچائے کھڑے نظر آتے ہیں لہذا وزیر اعظم عمران خان سے صرف اتنی گذارشات کرنا مقصود سمجھتا ہوں کہ وہ ایک سیاسی لیڈرکی حیثیت سے اپنی حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا اپنے دیرنیہ اور مخلص پارٹی ساتھیوں اور حامیوں کو ساتھ بٹھا کرجائزہ لیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ان کے ناعاقبت اندیش مشیروں کی کارگذاریوں کی وجہ سے ملک کی معاشی و سماجی حالت کس قدر ابتر ہوچکی ہے اور لوگوں نے جس اعتمادکے ساتھ ان کو اور انکی پارٹی کو ووٹ کی پرچی سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا تھا آج کیوں وہ ان سے اور ان کی پارٹی سے نالاں ہو چکے ہیں اور آئندہ انہیں ووٹ نہ دینے کی باتیں کیوں کی کررہے ہیں اور وہ کونسے دوست نما چھپے دشمن ہیں جو انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے میڈیا خاص جنگ جیو میڈیا گروپ کی پالیسیوں اور اسکے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کے خلاف اکسا کر اپنے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کرنے کے ساتھ بحیثیت سیاسی لیڈر عمران خان کی شخصیت اور ان کی پارٹی کی ساکھ کو تباہ کررہے ہیں۔یقینی طور پر ایسے لوگ کبھی بھی کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کے دوست نہیں ہوسکتے بلکہ ان کے اپنے خاص مقاصد اور ایجنڈا ہوتا ہے جس کی تکمیل کیلئے وہ اپنے خاص طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتوں کی اہم قیادت کے ذریعہ اقتدرا کے ایوانوں میں اپنی جگہ بنا کر اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے وقت کے حکمرانوں اور حکومتوں کا سہارا لیتے ہیں

لہذا وزیراعظم عمران خان سے گذارش ہے کہ جہاں وہ اپنی سیاسی، معاشی و سماجی پالیسیوں کا جائزہ لیکر ان میں بہتری لانے کیلئے اقدامات اٹھائیں وہیں پر اپنی میڈیا ٹیم کی تشکیل نوء بھی ضرور کریں اور اس ٹیم میں موجود ایسے مفاد پرست عناصر جو روز اول سے انہیں میڈیا اور میڈیا مالکان اور باکردار صحافیوں سے لڑوانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں کو سائیڈ لائن کرکے اچھے اور مثبت سوچ والے ساتھیوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں اور ایڈیٹر انچیف جنگ جیو نیوز میڈیا گروپ میر شکیل الرحمن کے حوالے سے اپنی پالیسی کو غیر جانبدارانہ بنا کر انصاف کے اصولوں کو یقینی بنانیکی واضح ہدایات جاری فرمائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔


ملک عصمت اللہ نمائندہ جنگ میانوالی ہیں

About The Author