اساں تاں رفعت مر ونجنڑاں ہے ساڈی قبراں آتے
راہواں بھلیاں چڑیاں لہہ کے گاونڑ گاندیاں ہوسن۔
انسانی ارتقاء کے سفر میں اب شاید موت ہی واحد وجہ بچی ہے جس کا خوف انسان کو لاحق ہے ورنہ تو انسان اپنے ساتھ بسنے والے اپنے جیسوں اور باقی مخلوقات کو شکست دیتا ہوا مریخ تک سفر پر روانہ ہے کہ اس کے سامنے جہاں اور بھی ہیں، اس اور بھی ہیں میں واحد موت ہے جو راستے کی رکاوٹ ہے اور اس رکاوٹ نے ازل سے اب تک وہ بھی چھینے ہیں جو جگنوؤں کی ماند راہواں بھلیاں کیلئے راہنمائی تھے ، ان کو بھی سر راہ روک لیا جہنوں نے آسمانوں پر کمندیں ڈالنا تھیں اور ان کے لیے بھی مونجھا کیا جن کا ہونا وجہ جیون تھا ایسا ہی ایک ہنستا مسکراتا چہرہ زرد ہوا جہنوں نے ہم چھ کروڑوں کی زبان کو لفظوں کا اعتماد دیا اس قدر گماں کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا اس سال جب وہ سب جدا ہو رہے تھے جن کے لئے ہم ذہنی طور تیار نا تھے پروفیسر شوکت مغل کی موت کی خبر آئے گی خواجہ غلام فرید یاد آئے
جگ وہم خیال تے خواب اے
ہر صورت نقش بر آب اے
سات دریاؤں کی سر زمین پر یہ ایک ایسا نقش تھا جو صدیوں قائم رہے گا جو بولتے تھے تو واقعی باتوں سے محاورے پھولوں کی ماند برستے تھے ، جو چلتے تھے تو شہروں کی گلیاں نکریں، کوٹ سبزل سے ڈیرہ اسماعیل خان ، رٹھی روہی سے سسکیاں لیتے تھر، گھوٹ فرید کی نگری سے ہیر کے جھنگ تک کون سی ایسی جگہ ہے جس نے ان کو روک روک کر اپنے سینے میں چھپائے لفظ پرساد بنا کر جھولی میں نہیں ڈالے ؟
پروفیسر شوکت مغل چلتے پھرتے سرائیکی وسوں تھے اور اس وسوں کا جنم اس کرہ ارض پر قائم بوڑھے شہر ملتان میں ہوا، ہونا بھی یہیں تھا کیونکہ یہ شہر کب سے ایک تانگھ میں تھا اپنے وارث کی جس کے ذمے اس نے گم کر دیے لفظ لگانے تھے ، اپنے بھلا دئے گئے محاورے یاد کروانے تھے اپنے بیٹوں کے خون سے لکھی واراں دیکھانی تھیں، ” او وی ساکوں کیویں ڈیہدن ایہو ڈیکھجے ” اس دیکھنے کے لیے مستشرقین کی مرتب ڈکشنریاں، کہانیاں ایسے سونپی تھیں جیسے بوڑھی اماں اپنے والد کی طرف سے دئے جہیز کو سانبھ کر رکھتی اپنی بیٹی کے لئے ، پھر اپنے ملتان سے پارت لے کر سفروں پر نکلنا تھا ، یہ الگ بات ہے یہ بھلے سفروں پر رہے ان کو خبر تھی یہاں کون کب سے بس رہا ہے یہاں کون بے گھر ہے ، کبھی تو گماں ہوتا تھا ان کے پاس کوئی پرکھوں کی تختی ہے جس پر ہماری صدیوں کی کتھا درج ہے وہ تختی لے کر لکھنے نے جاتے بلکہ اپنی وسوں کی سانبھ لیے ایک ایک شے کو دیکھ کر پھر تختی سے ملاتے ہیں کہ ویسے ہے یا لوٹ لی گئی؟
سرائیکی زبان و ادب میں کون سا ایسا میدان ہے جہاں پروفیسر شوکت مغل کا نشان نا ہو بلکہ ان کی موجودگی کسی بیاباں صحرا میں سایہ دار درخت کی ماند ہے جہاں سے اگلی صبح نئی منزل کا نشاں ملتا ہے، زبان، تاریخ، ادب ، نثر فریدیات پر لگ بھگ چار درجن کتابیں لکھیں اور کبھی کسی بھی داد و تحسین کی امید نا رکھی بس کام کام اور کام کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے اور وہی کیا اور آج جب بھی سرائیکی زبان کی بات ہو گی ہمیں سارے شبد شوکت الغات سے لینے ہوں گے۔
پروفیسر شوکت مغل کا کام اور تصانیف زمانوں میں زمانے پر کھیلیں گی لیکن بحیثیت طالب علم میرا یقین ہے پندرہ ہزار سرائیکی محاورے جو تین جلدوں پر مبنی ہیں اور وہ جن کو استعماری طاقتوں نو ” کمی” کہہ کر گالی بنا دیا تھا اور اب جب وہی کمی اس دنیا کو روشن چہرہ ہونے جا رہے ہیں ان کی ” پیشہ ورانہ اصطلاحات” ایسا کام ہے جس کے لئے سرائیکی وسوں ہمیشہ مقروض رہے گی۔
جن کے ساتھ سانس لیے ہوں ان کے سانس رک جانے کے بارے لکھنا مشکل ہوتا ہے ہمدم دیرینہ شہزاد اسد لغاری کی بدولت پروفیسر شوکت مغل کے ساتھ روہی کا سفر آج بھی یاد ہے ، روایت ہے کہ کسی بارے جاننا ہو اس کے ساتھ سفر کریں اس سفر میں ان کی باپ نما شفقت اور محبت دیکھی تھی۔ ہمیشہ اپنی ذات کے اوچ سے نیچے اتر کر انگلی پکڑ کر ساتھ چلانا جانتے تھے اور چلایا بھی ان چند مجاہدوں میں سے تھے جہنوں نے تب سرائیکی لکھنا شروع کیا جب لفظ سرائیکی لکھنا بھی جرم تھا اور پھر لکھتے گئے ایک زندگی میں کئی زندگیوں کے کام کر گئے اور وہ سب بھی اکیلے کیا جس کے لئے جامعات بورڈ بناتی ہیں۔
سرائیکی وسوں، زبان و ادب اور اس کے شبد مونجھے ہیں ، ایسے میں پروفیسر شمیم عارف قریشی کی کافی
واہندا راہسی جیونڑ واہندا راہسی
کانوں کو اعتماد بخش رہی ہے کہ ” ہم نا ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا” لیکن شاید شوکت مغل صاحب جیسا پھر کوئی نا ہو ، جب تک سرائیکی زبان اور اس کے شبد ہیں مغل صاحب زندہ رہیں گے۔
محمود مہے ملتان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر