پچھلے سات برسوں سے خیبر پختونخوا پولیس کی تعریفوں کے پل باندھنے والے اس مثالی پولیس کے تازہ ”کارنامہ” پر ”لمبی” چپ سادھے ہوئے ہیں۔
لطیفہ یہ ہوا کہ جب جناب پرویزخٹک وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے ان دنوں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک ہنگامی طور پر اسلام آباد سے پشاور پہنچے اور متعلقہ تھانے میں ایس ایچ او سے تفتیش کر رہے ہیں۔ ظالمو وزیردفاع کا جون کے مہینے میں گرم کوٹ اور ہمرائیوں کے گرم کپڑے ہی بدلوا دیتے، تکنیک کا مظاہرہ کرتے ایس ایچ او تو اصل یعنی حالیہ واقعہ والی ویڈیو میں ڈال دیتے۔
اچھا اب قصہ یہ ہے کہ ردیع اللہ عامر نامی نوجوان نے جو پشاور کے ایک شادی ہال میں ہیڈ ویٹر ہے چند دن قبل اپنے ساتھیوں کیساتھ مستیاں (منشیات استعمال کی) کیں اور نشہ کی حالت میں پولیس کیلئے بداخلاقی سے بھری گفتگو کی۔
اس کے ”ٹن” دوستوں نے اس بدزبانی کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔
ویڈیو وائرل ہوئی، فیس بک اور ٹویٹر کے پاکستانی صارفین کی اکثریت نے عامر کی بدزبانی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اپنے کمنٹس میں خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیوں کا بہت احترام کیساتھ ذکر کیا۔
دو دن بعد عامر کی ایک نئی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی جس میں وہ اپنی بدزبانی پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف معذرت کا طلب گار دکھائی دیا بلکہ اس نے معافی مانگتے ہوئے پولیس کی تعریف بھی کی۔
سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر کمنٹس کئے
”عامر مزاج کی بحالی کے بعد، سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے کے بعد”
سبھی یہ سمجھے ایک ناسمجھ نوجوان نے نشہ میں بدزبانی کی، اس کے دوستوں نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی، پولیس نے ویڈیو وائرل ہونے پر اسے دھر لیا بات معذرت ومعافی پر ختم ہوگئی، چلو اچھا ہوا،
لیکن ایسا سوچنے والوں پر قیامت اس ویڈیو نے توڑی جس میں تھانہ تہکال کے چند پولیس اہلکاران تھانہ میں عامر کو برہنہ کرتے ہوئے گالیاں دینے کیساتھ اس کی ہمشیرہ بارے نازیبا کلمات کہہ رہے ہیں۔
عامر نے جو کہا وہ صریحاً غلط تھا مگر اس کی معذرت ومعافی کے باوجود تہکال تھانہ کے عملے نے جس درندگی’ گھٹیاپن اور پشتون روایات کو روندتے ہوئے جو ”مثالی” کارنامہ سرانجام دیا اس نے مثالی پولیس کا اصل چہرہ دکھا دیا۔
پولیس نے فقط تھانہ میں عامر کو ننگا کرکے گالیاں دینے اور گھریلو خواتین بارے بدزبانی کرتے ہوئے اپنی “فتح دہلی” کی ویڈیو نہیں بنائی بلکہ پھر اس عظیم کارنامہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی ڈال دی۔
اب وہی لوگ جو کل تک عامر کی بدزبانی کی مذمت کر رہے تھے پولیس کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں،
گوچند محبان پولیس جن میں کچھ روایتی مخبر بھی شامل ہیں پچھلے دو دنوں سے پولیس کی قربانیوں کا سودا فروخت کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
لیکن کیا ان قربانیوں کے بدلے میں پولیس کو یہ لائسنس مل گیا ہے کہ وہ جو چاہے وہ کرتی پھرے؟
اگلا ستم یہ ہے کہ پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کیلئے پولیس نے اختیارات کے ناجائز استعمال کی دفعہ166 مقدمہ میں شامل نہیں کی، اسی طرح پولیس ایکٹ2017ء کے سیکشن119 کو بھی ایف آئی آر میں شامل ہونا چاہئے تھا۔
غیرقانونی طور پر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا اور ایف آئی آر کے بغیر تھانے میں رکھ کر تشدد کرنے کے ضمن میں متعلقہ دفعات کو نظرانداز کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ ایس ایچ او تہکال کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، یہی نہیں بلکہ جب تھانہ تہکال کے ”شیرجوان” عامر کی گرفتاری کیلئے اس کے گھر چڑھ دوڑے اور وہاں جس طرح قانون وانسانیت کو روندا گیا وہ ایک الگ مقدمہ ہے۔
کیا اندراج مقدمہ کے بغیر پولیس مجاز تھی کہ تھانے کے عملے اور مخبروں کا لشکر لیکر عامر کے گھر چڑھ دوڑتی؟ سچ یہ ہے کہ اس ایک انسانیت سوز واقعہ نے پشاور پولیس کی تین عشروں کی ان قربانیوں پر کالک مل دی جو اس نے سماج دشمن عناصر اور طالبان گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے دی تھیں۔
چند دن قبل سابق قبائلی علاقے کے ایک سکول ٹیچر کو مبینہ پولیس مقابلہ میں ”پار” کرنے پر پشاور پولیس پر پہلے ہی سوالات اُٹھ رہے تھے۔
عامر والے واقعہ اور ویڈیو نے پھر سے اس رائے کی تصدیق کر دی کہ مثالی پولیس والی کہانی بس کہانی ہی ہے ”قربانیاں حالات کی مجبوری تھیں اصل چہرہ یہ ہے”۔
بجا ہے کہ وزیراعلیٰ سمیت دیگر حکام انصاف کے وعدے کر رہے ہیں لیکن ایف آئی آر بتا رہی ہے کہ انصاف سے زیادہ سبھی معاملے کو ٹھنڈا کرنے اور آگے بڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے عامر کے بھائی کا کہنا ہے کہ متاثرہ نوجوان دوبار خودکشی کی کوشش کر چکا۔
پولیس یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ عامر افغان شہری (یعنی مہاجر) ہے، مان لیتے ہیں لیکن کیا افغان شہری انسان نہیں؟
بدقسمتی یہ ہے کہ کل بدھ کے دن ہی پشاور پولیس کی طرح کی ایک ویڈیو کوئٹہ پولیس کی بھی وائرل ہوئی، کوئٹہ میں احتجاج کرنے والے طلباء وطالبات پر پولیس نے نہ صرف تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا بلکہ طالبات کو مرد پولیس اہلکاروں نے گندی گندی گالیاں دیں، آوارہ اور فاحشہ قرار دیا۔
چلیں کوئٹہ پولیس تو خیر غیرمثالی پولیس ہے اسی لئے ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے متعلقہ ایس پی کو معطل کر دیا ہے
لیکن یہ سوال اہم ہے کہ طالبات کو دھکے دینے اور گالیاں دینے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا؟
بدفطرتی اور انسانیت دشمنی میں پنجاب پولیس سرفہرست ہے مگر پشاور اور کوئٹہ کے حالیہ واقعات کے بعد یہ اعزاز ان دو شہروں کی پولیس کے حصہ میں آگیا۔
عامر نے بدزبانی کی تھی معذرت کرلی پھر یہ سب کیوں ہوا؟
کوئٹہ میں کس قانون کے تحت مرد اہلکاروں نے طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا اور منہ بھر کر فحش گوئی کی۔
معاف کیجئے گا معطلی اور اندراج مقدمہ فقط ڈھکوسلہ ہے۔
پشاور پولیس اپنے پیٹی بند بھائیوں کی پشت پر کھڑی ہے اور ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان بھی بس لفاظی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
پشاور اور کوئٹہ کے واقعات نے اصل میں ہمارے سماج کے عمومی رویوں اور ذہنی پستی کو چوراہے پر بے نقاب کر دیا ہے۔
مثالی پولیس کی قربانیاں نالہ لئی میں پھینکنے والے سفاک وانسانیت دشمن اہلکار کسی رعایت کے مستحق نہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ انہیں ہر قسم کی رعایت ملے گی
کیونکہ شیر جوانوں کے مورال کا معاملہ بن جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر