پرانے وقتوں میں بادشاہ بھی بادشاہ لوگ ہوتے تھے۔بے پناہ اختیارات کے حامل وسیع وعریض خطہ ارضی پر موجود سیاہ وسفید کے مالک بادشاہ کی زندگی اتنی پُرشکوہ ہوتی تھی کہ اس کے لیے اس کو بادشاہ کہنا ہی مناسب ہے۔جب میدان جنگ میں نکلتے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر تخت یا تختہ کی بنیاد پر لڑائی لڑتے یا تو مار دیئے جاتے یا پھر تخت کے وارث بنتے۔میدان جنگ میں ایک بہادر جنگجو کا کردار ادا کرنے والے جب تخت پر بیٹھتے تو سر پر جواہرات سے مرصع تاج پہن کر بادشاہ بن جاتے۔ان کے سامنے دربار سجتا اور اس میں درباری جمع ہوتے۔بادشاہ کی ہر بات پر واہ واہ اور ہر اقدام پر مبارک سلامت کا شور مچانے والے جب گفتگو کرنے لگتے تو جان کی امان طلب کرتے۔اجازت ہے کی آواز کے ساتھ دربار شاہی کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کی جاتی اور بادشاہ سلامت کی پسندیدگی تک بات کرنے والے کی جان پر بنی ہوتی۔مدعا شمشیر بکف لڑنے والے ایک بہادر سپاہی کو جب درباری گھیرتے تو عجیب وغریب شاہی فرمان جاری ہوتے۔مضحکہ خیز فیصلے ہوتے اگر کوئی الجھن پیدا ہوجاتی تو درباریوں میں کسی زہین و فطین درباری سے اس کا حل مانگا جاتا اور حل ملنے پر انعام اور نا ملنے پر سزا کا فیصلہ ہوتا۔
تاریخ میں جہاں بادشاہوں کا ذکر ملتا ہے وہیں پر ان کے درباریوں کا تذکرہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ان درباریوں میں بھی ان کے علم وفن کے اعتبار سے تقسیم ہوتی تھی۔مذہبی مسائل پر دربار میں موجود علما سے سوال کیئے جاتے اسی طرح عدل و انصاف کے لیئے، موسیقی ، طب ،معاشی مسائل گویا ہر نوعیت کے مسائل کے لیے دربار میں موجود متعلقہ درباریوں سے سوال کیئے جاتے۔ان میں سے کچھ بادشاہ کے بہت قریب ہوتے اور ان کو دربار میں انکی قابلیت کی بنا پر وزیر باتدبیر کا رتبہ دیا جاتا۔تدبیر کے لغوی معنی سوچ بچار، منصوبہ ، بندوبست ،علاج وغیرہ ہیں۔ان ہی وزیر باتدبیر کی بدولت امور مملکت نمٹائے جاتے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس بادشاہ کے وزیرباتدبیر سمجھدار اور بادشاہ کے ساتھ مخلص تھے ان حکومتوں کو عروج ملا اور جن کے وزیر باتدبیر سطحی قسم کے تھے ان کو زوال آتے دیر نہیں لگی۔ان کے غلط مشوروں کی بدولت نا تو بادشاہ سلامت رہا اور نا ہی اس کا تاج وتخت سلامت رہا۔
زیادہ دور مت جائیں زرا دہلی کے تخت پر براجمان مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دربار کا حال دیکھ لیں۔ نو رتنوں سے سجا یہ دربار انتہائی غیر معمولی تھا۔اکبر کے نو رتنوں میں جہاں راجہ ٹوڈرمل ، مرزا عزیز کوکلتاش المعروف خان اعظم،حکیم ابوالفتح ، حکیم ہمام، عبدالرحیم خان خاناں اور ابوالفضل اور فیضی جیسے زیرک لوگ موجود تھے وہاں پر انتہائی حاضر دماغ راجہ بیربل بھی موجود تھا۔جتنی شہرت راجہ بیربل کو حاصل ہوئی شائد ہی کسی کو ہوئی ہو۔اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جلال الدین اکبر اور راجہ بیربل لازم و ملزوم تھے۔بادشاہ سلامت کی جب بھی امور مملکت سے طبیعت بوجھل ہو جاتی تو راجہ بیربل کو طلب کرلیا جاتا۔راجہ بیربل لطائف اور حاضر دماغی سے بادشاہ سلامت کی بوریت کو ختم کردیتا۔تاہم جلال الدین اکبر کی ایک غلطی سے اس کا یہ نورتن زندگی کی بازی ہار گیا۔اکبر نے شمالی ہندوستان میں افغانوں کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے بیربل کو فوج دے کر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا۔لطائف سنانے والا بیربل جنگی حکمت عملی اور چالوں سے بے خبر تھا اور بالآخر افغانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بیربل کسی ایک فرد یا شخصیت کا نام نہیں ہے۔ہر بادشاہ کے دربار میں بیربل جیسے کردار ہمیشہ پائے جاتے ہیں۔مختلف ادوار میں ان کرداروں کے نام مختلف ہوسکتے ہیں تا ہم ان کی خدمات ایک سی رہی ہیں۔تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے لہذا کچھ بھی نہیں بدلا اور اس وقت بھی گویا ایک دربار سجا ہوا ہے اور بادشاہ سلامت کے نورتن پورے جوش و جذبے کے ساتھ بادشاہ کو محضوظ کرنے میں مشغول ہیں۔گوکہ اس مقصد کے لیے خاص طورپر وزارت مخولیات تشکیل دی گئی ہے تا کہ بادشاہ سلامت گاہے بگاہے بیانات سے لطف اندوز ہوتے رہیں تاہم بادشاہ سلامت کی خوشنودی کے لیے پورا دربار ہی بیربل کا کردار ادا کررہا ہے۔جہاں تک امور مملکت کی بات ہے تو مملکت کے مالیاتی امور ویسے ہی غیر ملکی مالیاتی اداروں نے چلانے ہیں اور رہی دفاع کی بات تو وہ ویسے بھی مضبوط ہاتھوں میں ہے۔کرنے کو اور کچھ نہیں ہے تو چلو مذاق ہی سہی اور ستم بھی یہ کہ مذاق بھی بادشاہ سلامت نے یہ کہہ کر شروع کیا کہ تخت پر بیٹھتے ہی لاکھوں نوکریاں اور گھر دوں گا۔
بس اس کے بعد تو مذاق در مذاق کا سلسلہ شروع ہوگیا۔نو رتنوں نے تو اس قدر مذاق کیا کہ یہ قوم کے ساتھ ہی سنگین مذاق ہوگیا۔شراب کی بوتلوں میں شہد بھرنے سے شروع ہونے والا مذاق کا یہ سلسلہ جان رب کو دینی ہے کے حلف کے ساتھ 55 روپے فی کلومیٹر ہیلی کاپٹر کے کم خرچ ہوائی سفر سے بالآخر کورونا کے 19 نکات تک پہنچ گیا ہے۔یار زندہ صحبت باقی خاطر جمع رکھیں مسخرے پن کا یہی حال رہا تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں بلکہ زیادہ شدومد کے ساتھ جاری رہے گا۔عوام معاشی تنگ دستی کے سبب پریشانی میں ہنسنا بھول گئی ہے۔بادشاہ کے نورتن اگر مسائل حل نا کرسکے تو کم سے کم اپنے مسخرے پن سے عوام کو ہنسا کر ان کی پریشانیوں کو کم کرنے کی کوشش تو ضرور کررہے ہیں اور فی الحال اس کوشش کو ہی غنیمت سمجھیں۔ویسے بھی جن بادشاہوں کو تاج وتخت بغیر محنت اور محلاتی سازشوں کے نتیجے میں ملے ہیں تاریخ گواہ ہے وہ نا تاج سنبھال سکے اور نا ہی تخت۔یاد رہے کہ بادشاہ کے دربار میں ایک ہی بیربل کی گنجائش ہوتی ہے اور اگر بیربل کو ہی بادشاہ بنا کر تخت پر بٹھا دیا جائے تو سوچیئے انجام کیا ہوگا۔ویسے بیربل کی طرز حکمرانی کو سوچنے کی نہیں فی زمانہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔آپ زرا اپنے گردوپیش پر غور تو کریں جلد ہی بیربل کو تلاش کرلیں گے۔بس آپ کی تھوڑی سی توجہ درکار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر