پاکستان کے معصوم اور سادہ لوح عوام کے اذہان کو ملک دشمنوں کی پھیلائی جھوٹی کہانیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ سرکار کی نگرانی میں چلائے پی ٹی وی کو توانا سے توانا تر بنایا جائے۔ اسی باعث آپ اور میں ہر مہینے اپنے بجلی کے بل کے ساتھ سو روپے کی اضافی رقم بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ رقم ادا کرنے کے باوجود ہم میں سے پی ٹی وی نشریات باقاعدگی سے دیکھنے والوں کی تعداد مضحکہ خیز حد تک کم دکھائی دے گی۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے کئی بار گماں ہوتا ہے کہ بجلی کے بلوں کے ساتھ ہم جو اضافی رقم ادا کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنے گھروں میں ٹی وی رکھنے کا ’’جرمانہ‘‘ ہے۔ اس جرمانے کو غنڈہ ٹیکس کی صورت ادا کرنے کے باوجود ہمیں ایسا کوئی اختیار میسر نہیں جو یہ گماں فراہم کرے کہ پی ٹی وی پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس کی نگرانی کا ہمارے ’’نمائندوں‘‘ کے ذریعے کوئی بندوبست بھی ہے ۔ہم سے رقم اینٹھ کر سرکار اپنی پسند کا Content چلاتی ہے۔ وہ مائی باپ ہے۔ سخت گیر والدین کی طرح اسے یہ طے کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہے کہ معصوم اور سادہ لوح عوام کو پی ٹی وی کے ذریعے کیا دکھایا اور بتایا جائے۔ سرجھکائے احکامات کا اتباع ہماری سرشت میں شامل ہے۔
میں اور آپ تو اپنی بے اختیاری کا کامل ادراک رکھتے ہیں۔ ہمارے ’’منتخب کردہ‘‘ لوگوں پر مشتمل مگر قومی اسمبلی نام کا ایک ادارہ بھی ہے۔ اس میں کئی ’’پاٹے خان‘‘ ہیں جو اکثر اس ادارے کو ’’سب پر بالادست‘‘قرار دیتے ہیں۔ اس ’’بالادستی‘‘ کی اصل ’’اوقات‘‘ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو وہ پی ٹی وی نیوز پر براہِ راست نہیں دکھایا جاتا۔ پارلیمان کی کارروائی دکھانے کے لئے ’’پارلیمنٹ‘‘ کے نام سے پی ٹی وی ہی نے ایک پلیٹ فارم مختص کررکھا ہے۔ یہ چینل اسلام آباد کے بیشتر گھرانوں کو کیبل کے ذریعے ٹی وی نشریات دکھانے والوں نے اپنے پیکیج میں شامل ہی نہیں کیا۔
کرونا کے خوف سے گھر میں محصور ہوکر ’’خبروں‘‘ کو ڈھونڈتے مجھ جیسے صحافیوں کو قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لئے یوٹیوب کی Live Stream سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے میرے فون پر میسر یوٹیوب پر ’’پی ٹی وی پارلیمان‘‘والا ’’معجزہ‘‘ دستیاب نہیں ہوتا۔ دو نجی ٹی وی ہیں جن کے ذریعے اسمبلی کی کارروائی یوٹیوب پر براہِ راست دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ہمارے ’’منتخب نمائندوں‘‘ میں سے کسی ایک ’’پاٹے خان‘‘ کو ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ ’’تحریک استحقاق‘‘ نامی سہولت کو یادرکھے۔ اس کے ذریعے پتہ کروائے کہ پی ٹی وی کے کرتا دھرتا عوام کو ’’ان کے نمائندوں‘‘ کی جانب سے قومی اسمبلی میں ہوئی تقاریر کو اپنی نگرانی میں چلائے کسی ایسے پلیٹ فارم پر کیوں نشر نہیں کررہے جو گھروں میں بیٹھے ناظرین کی دسترس میں ہو۔ انہیں یوٹیوب سے رجوع نہ کرنا پڑے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے حقیقت یہ بھی یادرکھنا ہوگی کہ ہمارے معصوم اور سادہ لوح عوام کی اکثریت ابھی Digitalحوالوں سے بہت ’’سمارٹ‘‘ نہیں ہوئی۔ ’’پارلیمان کی بالادستی‘‘ کا راگ الاپنے والا کوئی ’’پاٹے خان‘‘ مگر یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہیں دکھائے گا۔ ’’ہمارے نمائندے‘‘ بھی ’’ہم ہوئے،تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘‘ والے شعرمیں بیان کردہ کیفیت کے مطابق ’’اسی زلف‘‘ کی گرفت میں آچکے ہیں۔
بہرحال گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی۔ اس وڈیو کی بدولت ڈیرہ غازی خان کے ’’لغاری ٹمن داروں‘‘ کو عوام کی بے پناہ طاقت سے جولائی 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر شکست دینے کے ذریعے ’’تاریخ‘‘ بنانے والی ایک محترم خاتون کے گرانقدر خیالات سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ محترم خاتون ان دنوں وفاقی حکومت کی بلند آہنگ وزیر بھی ہیں۔ ہر موضوع پر اس اعتماد سے گفتگو کرسکتی ہیں جو ’’ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد ہے‘‘ والوںکو نصیب ہوتا ہے۔
پاکستان کے معصوم اور سادہ لوح عوام کو انہوں نے ایک شفیق استاد کی طرح یہ سمجھایا کہ Covid-19 کا اصل مطلب یہ ہے کہ کرونا نامی مرض کی 19 اقسام ہیں۔ انہوں نے محض تعداد بتائی تمام اقسام سے مختص علامات کا تفصیلی ذکر نہیں کیا۔وہ یہ تردد فرما دیتیں تو پیر کے دن کئی گھنٹے تک میں عذاب میں مبتلا نہ رہا ہوتا۔
ہوا یوں کہ پیر کے روز صبح حسب معمول اٹھتے ہی اخباروں کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا۔قلم اٹھاتے ہی مگر چھینکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ناک بہنے کے ساتھ سر میں درد کی ٹیسیں بھی اٹھنا شروع ہوگئیں۔ مجھے شبہ ہے کہ کرونا کی جو 19اقسام ہیں ان میں ایک ’’وہم‘‘ بھی ہے۔ وہم ہی کے غلبے میں آکر میں نے طے کرلیا کہ اپنی باری بھی آگئی۔ خود کو کرونا کی زد میں آجانے کے خوف سے گھبرا کر میں نے جلد ازجلد اپنا کالم مکمل کیا۔ اسے ٹائپنگ کے لئے بھجوادیا۔ کالم بھجوا دینے کے بعد میں نے ازخود Panadol کی دوگولیاں پانی کے ساتھ نگل لیں۔ چھنکیں مگر رکنے کو آمادہ نہیں تھیں۔ سر کے بعد کندھوں میں بھی درد کی لہر دوڑنا شروع ہوگئی۔ میں یوگیوں کی مانند اپنے بستر پر ’’آسن‘‘ باندھ کر Strategic Planning میں مصروف ہوگیا۔
ذہن میں فوری طورپرچند دوستوں کے نام آئے۔ مجھے یقین کی حد تک گماں تھا کہ ان سے رجوع کروں گا تو وہ کسی مستند لیبارٹری سے میرا کرونا ٹیسٹ کروادیں گے۔ اس کے نتیجے کے لئے مجھے دو دنوں سے زیادہ انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ اٹھاکہ اگر نتیجہ مثبت آگیاتو پھر کیا۔
گزشتہ جمعہ بجٹ تجاویز پر قومی اسمبلی میں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف صاحب نے ایک دردناک کہانی سنائی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیاکہ آزادکشمیر سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ جیالے اور ان دنوں وہاں کی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز چودھری یاسین صاحب کو چند روز قبل سانس لینا ناممکن محسوس ہورہا تھا۔ چودھری صاحب ایک محفل باز سیاست دان مشہور ہیں۔ اسلام آباد کے کئی بااثر لوگوں تک انہیں رسائی حاصل ہے۔ وہ مگر کسی ہسپتال میں داخل کئے جانے کے امکانات سے محروم نظر آئے۔ بلاول بھٹو زرداری تک خبر پہنچی۔ انہوں نے راجہ پرویز اشرف کو متحرک کیا۔ پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین اور ایک سابق وزیراعظم باہم مل کر مختلف ہسپتالوں سے رابطے کرتے رہے۔ راجہ پرویز اشرف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے پریشانی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا صاحب سے بھی رابطہ کیا تھا۔ یہ طے نہیں ہوپایا کہ مرزا صاحب کی معرفت یا کسی اور وسیلے سے مگر چودھری صاحب کو بالآخر ایک نجی ہسپتال میں بستر مل گیا۔ گزشتہ جمعہ تک ان کی حالت تشویش ناک تھی۔ ربّ کا صدشکر کہ اب ان کے حوالے سے اچھی خبر آرہی ہے۔
راجہ صاحب کی تقریر سے ایک دن قبل جے یو آئی کے مفتی عبدالشکور صاحب نے بھی بلوچستان سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے مولانا انور صاحب کے بارے میں ایسی ہی دردناک کہانی سنائی تھی۔ چھینکوں سے بدحال ہوا میں یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ اگر چودھری یاسین اور مولانا انور صاحب جیسے ’’بااثر‘‘ افراد کو ہسپتال میں جگہ نہیں مل رہی تو مجھ ’’بکائو صحافی‘‘ کا والی وارث کون ہوسکتا ہے۔ فرض کیا میں کرونا کا ٹیسٹ کروانے کو مجبورہوگیا اور نتیجہ مثبت آیا تو اپنے گھر ہی میں محصور ہونے کے سواکوئی راستہ نہیں ہوگا۔
اپنے ’’انجام‘‘ کو تیار ہوجانے کے بعد میں نے اپنے خانساماں کو پکارا اور اسے یہ حکم دیتے ہوئے حیران کردیا کہ مجھے دو انڈے فرائی کرنے کے ساتھ گھی میں بنایا پراٹھا دیا جائے۔ یہ دونوں چیزیں آگئیں تو میں پراٹھے کی خوشبو کوانڈے کی زردی سے جدا کرکے بیان کرنے والی قوتِ شامہ کو دیوانوں کی طرح استعمال میں لاتا رہا۔ اطمینان ہواکہ میری سونگھنے کی حس ابھی تک Intact ہے۔ پراٹھا انڈہ کھانے اور چائے کی پیالی نوش کرنے کے بعد میں تھوڑی دیر کو سوگیا۔ آنکھ کھلی تو چھینکیں ختم ہوچکی تھیں۔ درد بھی غائب تھا۔ جی خوش ہوا اور بستر سے اُٹھ کر گھر کے لان میں چلا گیا۔ درخت کی چھائوں تلے بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لئے۔ آکسیجن سے لدی ہوا نے مزید توانائی بخشی اور میں Covid-19 کی اس قسم سے نبردآزما ہونے میں کامیاب رہا جسے ’’وہم‘‘ کہتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر