میں اور میرا ایک دوست عمیر عبداللہ عاشورہ محرم میں باقاعدگی سے انچولی جاتے اور علامہ طالب جوھری کا خطاب سُنا کرتے- علامہ طالب جوھری کی مجلس کے عمومی طور پر چار حصے ہوا کرتے تھے، پہلا حصہ توحید، دوسرا حصہ رسالت، تیسرا حصہ فضائل اہلبیت اطہار اور چوتھا حصہ تذکرہ کربلاء و مصائب کربلاء…..
عمیر اور میرا تعلق اہلسنت کے گھرانوں سے تھا-
عمیر دیوبندی گھرانے سے تھا اور میں صوفی سُنی گھرانے سے
جب علامہ طالب جوھری توحید بارے قرآن مجید سے استدلال کرتے اور کہیں درمیان میں وہ وھابیت اور دیوبندیت پر لطیف پیرائے میں طنز کرتے اور اُن کی منطقی تردید اہلسنت و اہل تشیع کے نظریہ توسل و استغاثہ کے منافی توحید نہ جاتی تو میں عمیر کے چہرے پر ناگواری کا تاثر دیکھتا، میرے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی-
مولانا جب نام لیے بغیر متنازعہ معاملات پر گفتگو کرتے تو وہ اسقدر تجریدی منطق کا استعمال کرتے کہ جو اسلام کی ابتدائی تاریخ کا طالب علم نہ ہوتا اُسے سمجھ ہی نہ آتی کہ کیا کہا جارہا؟
ایک روز علامہ طالب جوھری جب توحید کا بیان کرچُکے اور شان رسالت کے بیان کرتے کرتے، میں انھوں نے کہا
"اگر بوقت ہجرت لوگوں کی امانتیں علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیں تھیں تو پھر اللہ کی امانت بھی انہی کے سپرد کی جاتی-"
عمیر نے پلٹ کر میری طرف اور میں نے عمیر کی طرف دیکھا اور ہم دونوں "ہی ہنس پڑے اور آہستہ سر کو جھٹکنے لگے-
مصائب کا بیان عمیر اور مجھے دونوں کو گریہ پر مجبور کرتا اور ہمیں اُس وقت پتا چلا کہ کیسے غم حسین سے بڑا غم کوئی نہیں ہے-
علامہ طالب جوھری اثناء عشری شیعہ تھےاور ظاہر ہے اُن کی خطابت میں اصول ہائے شیعہ اور مذھب شیعہ کی جھلک نظر آنی تھی اور کہیں کہیں اشاروں، کنایوں میں وہ شیعہ-سنّی بنیادی اختلاف کو بیان کردیتے تھے- لیکن اُن کا انداز شائستہ، تہذیب سے بھرپور ہوتا تھا-
ہم زبان کا چٹخارہ لینے، اُن کی مسجع مقفع شاعری سُننے اور معلومات کے سمندر میں غوطہ زن شخص کا ہنر ابلاغ اپنے اندر سمولینے کی خاطر علامہ طالب جوھری کو سُننے جایا کرتے تھے-
علامہ طالب جوھری شاعر بھی کمال کے تھے:
دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے
ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے
آج بھی حرف تسلی ہے شکست دل پہ طنز
کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دہرائے گئے
اس زمین سخت کا اب کھودنا بے کار ہے
دفن تھے جو اس خرابے میں وہ سرمائے گئے
دشمنوں کی تنگ ظرفی ناپنے کے واسطے
ہم شکستوں پر شکستیں عمر بھر کھائے گئے
اب درندہ کھوجیوں کی دسترس میں آ گیا
نہر کے ساحل پہ پنجوں کے نشاں پائے گئے
آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں
جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے
ان گلی کوچوں میں بہنوں کا محافظ کون ہے
کسب زر کی دوڑ میں بستی سے ماں جائے گئے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر