جناب وزیراعظم کو کوئی جاکر بتائے کہ این ایف سی ایوارڈ میں جو پیسہ صوبوں میں تقسیم ہوتا ہے، وہ اسلام آباد کے جنگلوں میں کاشت ہوتا ہے نہ کسی ٹکسال میں ڈھلتا ہے بلکہ یہ رقم صوبوں سے ہی وفاق کے پاس آتی ہے مختلف محاصل کی مدوں میں جسے دستور میں طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق تقسیم کرتے ہوئے وفاق اپنے اخراجات کیلئے کٹوتی کر لیتا ہے۔
کسی دن صوبوں نے یہ سوال کر دیا کہ خود وفاق کے پاس اپنا کیا ہے؟
اور یہ کہ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں سے لئے گئے قرضوں میں سے صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے کتنی رقم خرچ ہوتی ہے۔ وفاق کن کن مدوں میں قرضوں کو صرف کرتا ہے تو محض مسائل ہی پیدا نہیں ہوں گے بلکہ تنازعات کا دروازہ کھل جائے گا۔
پختونخوا کو بجلی کی رائیلٹی کی شکایات ہیں، کرک گیس پراجیکٹ کے حوالے سے بھی شکایات ہیں، بلوچستان کی سوئی گیس اور دیگر معدنیات کیساتھ گوادر کے حوالے سے شکایات ہیں، سندھ کی آئل اینڈ گیس اور صوبے سے حاصل کئے جانے والے ریونیو اور پھر واپس ادائیگیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
صوبہ پنجاب کے اندر سرائیکی بولنے والے اضلاع کے تحفظات ہیں، ان شکایات اور تحفظات کا مناسب حل، اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں ہے۔
یہ بھی حرف آخر نہیں اس میں وقت کیساتھ مزید بہتریاں لانے کی ضرورت ہے۔
پیہ اُلٹا گھمانے کے نتائج سے غالباً وہ (وزیراعظم) آگاہ نہیں۔ وجہ فقط ایک ہے انہوں نے کرپشن کو جواز بنا کر 22سال جدوجہد تو کی لیکن دستوری معاملات اور سیاسی عمل کے حوالے سے آگاہی کی ضرورت محسوس نہیں کی یہی وجہ ہے کہ جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں ان کی ہر تقریر اور بیان سے نئے تنازعہ کا ”کٹا” کھل جاتا ہے۔
سادہ لفظوں میں نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیڈریشن اپنے یونٹوں (صوبوں) کو نہیں بلکہ صوبے فیڈریشن (وفاق) کو پال رہے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔
سیاسی بصیرت کا تقاضہ ہے کہ دو غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اولاً یہ کہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل غیردستوری اور غیرقانونی تھی، بلوچستان کی نمائندگی سندھ کے شہری جاوید جبار کو دی گئی (گو وہ اب مستعفی ہوچکے) خیبرپختونخوا کی نمائندگی منڈی بہاؤالدین پنجاب کے ایک شخص کو دی گئی
(پختونخوا کے اندر سے سوائے اسفندیار ولی خان کے کسی نے اس پر لب کشائی نہیں کی)
سوال یہ ہے کہ جس نمائندے کا متعلقہ صوبے سے تعلق ہی نہیں ہوگا وہ این ایف سی کے اجلاس میں اپنے صوبے کے مفادات کا تحفظ کیسے کر ے گا؟
محاصل کی حالیہ تقسیم پر سندھ کا اعتراض درست ہے کہ اسے سوا دو کھرب سے زائد کی رقم کم دی گئی، ایسی ہی شکایت پچھلے برس بھی تھی،
وزیراعظم کا دستوری فرض فیڈریشن کی قیادت کرنا ہے مگر وہ تحریک انصاف اور اتحادیوں کی قیادت فرما رہے ہیں۔
کل جب ان کے پاس صرف خیبر پختونخوا کی حکومت (2013-2018) تھی تو وہ کہا کرتے تھے یہ اٹھارہویں ترمیم ہی ہے جس نے نواز شریف کو پرویز خٹک کی حکومت پر شب خون مارنے سے باز رکھا ہوا ہے۔
آج وہ وفاق اور تین صوبوں میں حکمران ہیں تو کہہ رہے ہیں ”اٹھارہویں ترمیم سے وزیراعلیٰ آمر ہوتا ہے” ان کا کہنا ہے این ایف سی ایوارڈ ناقابل عمل ہے۔
کیا وہ اپنے خیالات کے اظہار سے قبل غور وفکر اور صلاح مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؟
وہ اس تلخ حقیقت کو سمجھتے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم کے مسئلہ پر کسی ایڈونچر کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟
اپنے حالیہ دورہ سندھ (دو روزہ دورہ) کے دوران انہوں نے فیڈریشن کے قائد اور کسٹوڈین کی بجائے ایک ایسے سیاسی اتحاد کے سربراہ یا وائسرائے کا رویہ اپنائے رکھا جو اپنے مخالفین کی نفرت میں کسی حد تک جاسکتا ہے۔
کورونا وبا پر ان کے مخمصے نے مسائل پیدا کئے لیکن وہ کہتے ہیں سندھ مشورے کے بغیر لاک ڈاؤن میں چلا گیا باقی صوبوں نے اس کی پیروی کی۔
سندھ کیا کرتا، لوگوں کو مرنے دیتا؟
اچھا یہ جو سمارٹ لاک ڈاؤن ہے یہ کیا ہے؟
مکرر وزیراعظم کی خدمت میں درخواست ہے کہ حضور اب آپ ڈی چوک پر جلوس سے خطاب نہیں کر رہے کہ جو دل چاہے کہہ دیا کریں۔ 22کروڑ کی آبادی والے ملک کے وزیراعظم ہیں، بہت سنبھل کر احتیاط کیساتھ ایک ایک لفظ غور وفکر کیساتھ ادا کیا کیجئے،
بصورت دیگر مسائل کیساتھ تلخیاں بڑھیں گی۔
تحریک انصاف کے وفاقی حکومتی اتحاد سے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں جن خیالات کا اظہار کیا ان پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ یہ بجا ہے کہ 4افراد کی کمی کے باوجود وفاقی حکومت کو ابھی قومی اسمبلی میں 179یا180ارکان کی تائید حاصل ہے۔ (ایک آزاد رکن شکایات کے ازالے پر وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دیں تو تعداد180رہے گی) اپوزیشن کے پاس فی الوقت 161ارکان قومی اسمبلی ہیں۔ فوری طور پر وفاقی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں
کیونکہ اپوزیشن کو بی این پی کے ارکان مل جانے پر بھی 14ارکان عدم اعتماد لانے کیلئے درکار ہوں گے البتہ بی این پی کے اس فیصلہ کے بعد بلوچستان میں اے این پی کے 4ارکان صوبے کی مخلوط حکومت سے الگ ہو جاتے ہیں تو نہ صرف بلوچستان میں بحران پیدا ہو جائے گا بلکہ اس کے اثرات اسلام آباد میں بھی محسوس ہوں گے۔
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت بی این پی سے کئے جانے والے تحریری معاہدہ پر عمل کیوں نہیں کرسکی؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ معاملات تحریک انصاف یا وفاقی حکومت کے بس میں تھے ناہیں۔
درپردہ حالات کیا ہیں انہیں سمجھنے کیلئے جناب اخترمینگل کی قومی اسمبلی میں بدھ کے روز کی گئی تقریر کا متن پڑھ لیجئے ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ ”بلوچستان ہاتھ سے جا رہا ہے، پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اور حساب کر لیا جائے”۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر