دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسٹس فائز عیسیٰ کیس‘ 370 روز میں 46 سماعتیں‘کب ، کہاں اور کیا ہوا؟

سپریم کورٹ کے 9 ججوں نے 130 سے زائد سوالات پوچھے، جب کہ جج منظور احمد ملک نے 11 وکلا سے ایک سوال بھی نہیں پوچھا۔ ان وکلا نے 69 دلائل پیش کیے۔

ز

اسلام آباد(زاہد گشکوری) جسٹس فائز عیسیٰ کیس‘ 370 روز میں 46 سماعتیں‘کب ، کہاں اور کیا ہوا؟ وکلا کا موقف ہے کہ بہت سی اونچ نیچ کے بعد اس کیس نے حالیہ عدالتی تاریخ میں ایک نئی نظیر رقم کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق، سپریم کورٹ کے موجودہ جج کا 370 روز کا پیچیدہ ٹرائل کل ختم ہوا۔ 6 اگست، 2019 کو شروع ہونے والی سپریم کورٹ کی 46 سماعتوں کے دوران 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ثبوت پیش کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 28 مئی، 2019 کو اپنی پٹیشن تیار کی تھی جسے پانچ ہفتے بعد سپریم کورٹ نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سماعت کے لیے منظور کیا۔ سپریم کورٹ کے 9 ججوں نے 130 سے زائد سوالات پوچھے، جب کہ جج منظور احمد ملک نے 11 وکلا سے ایک سوال بھی نہیں پوچھا۔ ان وکلا نے 69 دلائل پیش کیے۔ ان میں بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجا، بابر ستار، منیر اے ملک، راشد اے رضوی، سینیٹر رضا ربانی، افتخار درانی، حامد خان، امان اللہ کنرانی، انور منصور خان اور وکلا کی ایک طویل فہرست شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود بھی دس رکنی فل کورٹ کے سامنے 44 منٹ تک پیش ہوئے۔ جب کہ ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے 43 منٹ تک اپنا بیان دیا۔ معزز جج صاحبان نے اس دوران اہم باتیں بھی کیں۔ ایف بی آر اور اثاثہ بازیابی یونٹ جسے سرکاری اداروں نے 12 ماہ کے دوران تمام ثبوت اکٹھے کیے اور جمع کروائے۔ تاہم، کچھ سوالات کے جوابات نا ہی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے دیئے اور نا ہی پٹیشنر کے وکیل منیر اے ملک نے دیئے۔ اکثر وکلا کا ماننا ہے کہ بہت سی اونچ نیچ کے بعد اس کیس نے حالیہ عدالتی تاریخ میں ایک نئی نظیر رقم کی ہے۔ سیکڑوں وکلاء، صحافی، سیاست دانوں نے یہ تاریخی سماعت دیکھیں بالخصوص 2 جون، 2020 کے بعد اس میں اہمیت حاصل کی۔ ان میں سے کچھ نے اس نمائندے کو اپنے تاثرات سے بھی آگاہ کیا۔ معروف وکیل منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ تمام نظریں اب تفصیلی حکم نامے پر ہیں۔ 15 سے 19 جون تک بہت سے وکلا اور سیاسی ماہرین پیش گوئی کرتے رہے کہ جمعے کے روز کچھ بڑا ہونے جارہا ہے۔ 19 جون کا فیصلہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں اہمیت کا حامل رہے گا جس میں سپریم کورٹ نے صدر پاکستان عارف علوی کے ریفرنس کو مسترد کردیا۔ بہت سے وکلا کا ماننا ہے کہ جسٹس عیسیٰ سے خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ان لوگوں کی بدنیتی بھی ظاہر کرے گی جنہوں نے صدارتی ریفرنس تیار کیا تھا جب کہ اے آر یو اور وزارت قانون جیسے اداروں کا کردار بھی تفصیلی حکم نامے میں بتایا جائے گا۔

About The Author