جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ نام لکھنے کی دیر ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جملے کسنے والے یہاں وہاں سے جمع ہو جاتے ہیں۔ ان افراد میں کچھ سیاست دان ہوتے ہیں، کچھ سیاسی کارکن، کچھ انجان گمنام اکاؤنٹس اور کچھ نام نہاد صحافی۔
سوال ہوتا ہے کہ رسیداں کڈو، جج صاحب بہانے نہ بناؤ (رسیدیں دکھاؤ)۔ یہ جملہ بھی پھینکا جاتا ہے کہ باپ ہوگا محسن پاکستان مگر بیٹا چوری کرے تو پکڑنا بنتا ہے۔ آئیں ذرا آج ہم وہ غلط فہمیاں دور کر لیں جو سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ہونے والے تاریخی ریفرنس کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
کیا جسٹس عیسیٰ کرپشن میں ملوث ہیں؟
عمومی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں توکرپشن ضرور کی ہوگی، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سال بھر سے جسٹس عیسیٰ کا کیس چل رہا ہے، صدارتی ریفرنس تک میں یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ ماضی قریب یا ماضی بعید میں کسی کرپٹ کام میں ملوث رہے ہوں۔
کیا جسٹس عیسیٰ نے بطور جج عوامی عہدے کا غلط استعمال کیا؟
اس سوال کا مختصر جواب ہے ’نہیں‘۔ یہ میرا گمان ہے، نہ کوئی تُکے بازی۔ وفاقی حکومت کے وکلا کے اب تک کے دلائل اٹھا کر کھنگال لیں۔ صدارتی ریفرنس تسلی سے پڑھ لیں۔ اب تک ایک بار بھی یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ نامی پاکستانی شہری نے بطور جج اپنے اثر رسوخ اور عہدے کا غلط استعمال کر کے لندن میں جائیدادیں بنائیں۔
کیا جسٹس عیسیٰ نے منصف کے حلف کو توڑا؟
جسٹس صاحب سپریم کورٹ کے جج ستمبر 2014 میں بنے جبکہ زیر بحث معاملہ اس سے قبل کا ہے۔ اس لیے حلف توڑنے کا معاملہ نہیں۔
کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بے نامی جائیداد بنانے کے مرتکب ہوئے؟
سپریم کورٹ میں جج صاحب کے جمع کرائے گئے تمام جوابات اور صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ لندن میں تین جائیدادیں ان کے بیٹے، بیٹی اور بیوی کے نام پر ہیں۔ یہ جائیدادیں جن کے نام پر خریدی گئیں وہی اس کے رہائشی ہیں۔
کیا جسٹس عیسیٰ کا معاملہ پانامہ کیس کی طرز کا ہے؟
ہرگز نہیں۔ پانامہ کیس میں ملک کے وزیر اعظم کے بچوں پر آف شور کمپنیاں بنانے، ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کرنے، ٹرسٹ کے ذریعے جائیدادیں خریدنے اور اس تمام عمل میں پیسے کے ذرائع نہ بتانے کا الزام تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے بچوں پر اب تک یہ الزام بھی نہیں کہ انہوں نے کسی دوسرے تیسرے ذرائع سے جائیدادیں خریدیں، کوئی جعلی کمپنی بنائی یا کسی ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کیے۔
یہ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟
یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ اول بات تو یہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پاکستان میں موجود ملکیتی جائیدادیں، خاندانی ذرائع آمدن، بطور جج، سرکاری ملازم ڈکلئیرڈ ذرائع آمدن کل ملا کر اتنی ہے کہ وہ باآسانی لندن میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔ دوسری بات کہ اگر بقول جج صاحب کہ یہ جائیدادیں ان کی نہیں ان کے بچوں اور بیگم کی ہیں تو کھوج لگانے والوں کو خوب علم ہے کہ جسٹس صاحب کی بیگم اور اہل خانہ کے اپنے اپنے علیحدہ، ڈکلیئرڈ ذرائع آمدن بھی ہیں۔
کیا جسٹس عیسیٰ ٹیکس چور ہیں؟
یہ 2004 کی بات ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا نجی ادارہ ایک قانونی فرم تھی جسے صدر پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ یہ قانونی فرم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے پارٹنر کی تھی۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ براہ راست جج صاحب پر ٹیکس ادا نہ کرنے یا اثاثے چھپانے کا کوئی کیس نہیں، نہ ہی ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کبھی کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کبھی کوئی نوٹس بھیجا گیا۔
کیا جسٹس عیسیٰ کے بیوی بچے ابا کے مال پر عیش کر رہے ہیں؟
جسٹس عیسیٰ کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسو لندن کی یونیورسٹی سے ایم اے ہیں، لندن میں کنٹریکٹر کا کام کرتے رہے ہیں جبکہ بہو ایک فنانس کمپنی میں بطور کنلسلٹنٹ ملازم رہیں۔ دونوں لندن میں کما رہے تھے۔
جج صاحب کی بیٹی سحرعیسیٰ کھوسو بیرسٹر اور لندن میں قانون کی پریکٹس کرتی رہیں۔ یہ بلوچستان کی پہلی بیٹی ہیں جو کہ بیرسٹر بنیں۔ تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ داماد بھی بیرسٹر ہیں۔ یہ دونوں بھی کماتے ہیں۔
جسٹس عیسیٰ کی بیگم زرینہ کھوسو کریرا برطانوی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔ زرینہ کھوسو کراچی امریکن سکول میں بطور ٹیچر کئی دہائیوں تک پڑھاتی رہیں۔ زرینہ کھوسو کے والد عبدالحق کھوسو بلوچ ہیں جبکہ والدہ پیلیسا کریرا سپین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور آخری اہم بات۔ جسٹس صاحب کی بیگم سندھ اور بلوچستان میں سینکڑوں ایکڑ پر محیط خاندانی زرعی زمین کی مالک ہیں۔
اب یہ تو ہونے سے رہا کہ کوئی جج بن گیا تو اس کے گھر والے خود کچھ نہیں کماتے یا پھر ساری عمر ان ہی کے پیسوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ یہ وہ اثاثے ہیں جو کہ جج صاحب کے گھر والوں کے ہیں۔
کیا جسٹس عیسیٰ نے لندن میں محل نما گھر خریدے؟
آپ جسٹس صاحب کے خود مختار بیٹے، شادی شدہ بیٹی اور بیگم کی لندن میں موجود تینوں جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ لگائیں۔ جب وہ خریدی گئیں تب ان کی مالیت پاکستانی کرنسی میں لگ بھگ 11 کروڑ روپے بنتی ہے۔ ویسے ہلکی پھلکی بات ہے اتنے میں اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنگلہ بھی نہیں ملتا۔
اب ذرا حکومتی ٹیم کی بدنیتی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے جج صاحب پر الزام لگاتے ہوئے ان جائیدادوں کی مارکیٹ ویلو 2019 کے حساب سے لگائی ہے جوکہ 26 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اس وقت اسلام آباد کی وی آئی پی رہائشی عمارات میں اپارٹمنٹ کی قیمت 10 سے 50 کروڑ روپے کے درمیان چل رہی ہے۔
بات جائیدادوں کی چل نکلی ہے تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس وقت عدلیہ میں دو ججز ایسے ہیں جنہوں نے حکومت سے ملنے والے قیمتی پلاٹس لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایک ہیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ یہ انکار صدراتی ریفرنس آنے کے بعد نہیں کیا۔ یہ قصہ اس سے پہلے کا ہے۔
کیا سپریم جوڈیشل کونسل جج کے احتساب میں ہمیشہ اتنی ہی متحرک رہی؟
جی نہیں۔ جسٹس عیسیٰ کے ریفرنس سے پہلے دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کے درجنوں معاملات اس کونسل کے سامنے موجود تھے۔ تاہم ان سب سے پہلے جسٹس عیسیٰ کے کیس کو آؤٹ آف ٹرن کیوں اٹھایا گیا؟ ان کے کیس کو فوقیت کیوں دی گئی؟ اور اس کونسل نے اب تک کتنے ججز کے خلاف کارروائی کی یا پھر ججز کو دباؤ میں لینے کے لیے جھوٹے الزام لگانے والے کتنے افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا اس پر ایک چپ ہے اور سو سکھ۔
آخری سوال۔ اور بھی جج ہیں آخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کیوں؟
اتنے جواب دے دیے، ان کی تیز روشنی میں اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کریں۔ خدا ہم سب کو حق سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر