نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیس شہروں میں سمارٹ لاک ڈاون ۔۔۔ حیدر جاویدسید

”حد ادب” مانع ورنہ ایک اور شخصیت کے بارے میں نام لے کر عرض کرتا کہ وہ بھی اس سمارٹ لاک ڈاون پر معترض تھی

کورونا کے لئے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر(این سی اوسی) کی نشاندہی پر ملک کے 20شہروں میں سمارٹ لاک ڈائون پالیسی کے تحت درجنوں علاقے 15دن کے لئے سیل کر دیئے جائیں گے۔
کچھ شہروں میں یہ کام پچھلی شب ہوگیا بعض میں آج شب ہوگا۔این سی او سی نے کورونا کے پھیلاو میں خطرناک تیزی کی نشاندہی کی ہے
لاہور میں9ٹاونز کے لگ بھگ80علاقے سیل ہوں گے یوں سمجھیں کہ73-72 فیصد لاہور سمارٹ لاک ڈاون میں آ گیا۔آگے بڑھنے سے قبل ایک سوال آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں دو ماہ قبل جب کراچی میں اس طرز کے سمارٹ لاک ڈاون کا فیصلہ ہوا تھا تو اس کے خلاف میڈیا،تحریک انصاف کراچی سندھ حکومت مخالف جی ڈی اے متحد ہو کر میدان میں اُتر آئے تھے
”حد ادب” مانع ورنہ ایک اور شخصیت کے بارے میں نام لے کر عرض کرتا کہ وہ بھی اس سمارٹ لاک ڈاون پر معترض تھی
لیکن اب ویسی ہی صورتحال پر این سی او سی کے سمارٹ لاک ڈاون کے فیصلے کو انسان دوستی سے تعبیر کیا جارہا ہے کیسے کیسے منافق ہمارے معاشرے میں وافر مقدار میں موجود ہیں جو وبا پر بھی صرف سیاست کرتے ہیں یا لسانی تعصب کا ”ساڑ”نکالتے ہیں۔
اب چلئے دوسری طرف وزیراعظم کی کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کہتے ہیں ملک کے600ہاٹ سپاٹ علاقوں کو فوج اور رینجرز کی مدد سے سیل کیا جائے۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ برطانوی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ماہ اگست کے دوران کورونا کی وجہ سے78ہزار سے80ہزار اموات روزانہ کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔
جناب عطاء الرحمن کہتے ہیں خدانخواستہ اگر10سے15 ہزار اموات بھی روزانہ ہوئیں تو ہولناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
اگلے روز ڈاویونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھی اس سے ملتے جلتے خدشات اور اعدادوشمار دیئے کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسداد کورونا کے لئے جو اقدامات ہونے چاہیں تھے نہیں ہو پائے۔
کیوں نہیں ہو ئے رکاوٹ تھی یا مخمصہ؟قلم مزدور اس بارے اب کیا عرج کرے۔
اس وبا کے آغاز سے ہی ان سطور میں تفصیل کے ساتھ صورتحال قارئین کے سامنے رکھتا آرہا ہوں۔
جو بات طبی ماہرین چند دیگر احباب اور میڈیا کے کچھ لوگ پچھلے تین ماہ سے کہہ رہے تھے اور جو اب میں اپنے ہی لوگوں سے سخت سُست سن رہے تھے وہی باتیں اب وہ تمام حضرات کرنے لگ پڑے ہیں جو قبل ازیں الزام لگاتے تھے کہ خوف وہراس پھیلا یا جارہا ہے
کورونا کے پھیلاو کے اور پاکستان میں اس سے جولائی اور اگست میں بننے والی صورتحال پر برطانوی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ اور جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن کے خیالات ہر دو کوملا کر پڑ لیجئے چودہ کی بجائے سترہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
ادھر شہریوں کی بڑی تعداد احتیاط کو ڈھکوسلہ اور غیر ضروری سمجھتی ہے ایک حصہ اب بھی سازشی تھیوری کا منجن استعمال کر رہا ہے
سوشل میڈیا پر کچھ نقاب پوش مردوخواتین کی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ کسی بھی دوسرے مرض سے مرنے والے شخص کو کورونا میں ڈالنے کا حکم ہے۔بعض نے تو زہر کے ٹیکے والی بات کے درست ہونے پر اصرار کیا۔
اُدھر بنگلہ دیش میں کورونا سے وفات پانے والے ایک وزیر کا تمسخر اڑانے اور کورونا کو سازشی منصوبہ کہنے پر ایک خاتون لیکچرار کے خلاف ملکی قوانین کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ہمارے یہاں آٹھ دس کروڑ حکیم،سائنس دان،عالمی شہرت یافتہ جاسوس ایسی ایسی کہانیاں سازشی تھیوریاں اور علاج بیج رہے ہیں کہ ان کے خریدار بھی موجود ہیں۔

آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔
دو ویڈیوز بنائیں ایک میں سنجیدہ انداز میں کورونا کے پھیلاو سے خبردار کرتے ہوئے اعدادوشمار کے ساتھ احتیاط کا مشورہ دیجئے اسے ایک سو افراد بھی لائک کرلیں تو آپ خوش قسمت ہیں
اب دوسری ویڈیو بنائیں اس میں کورونا کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش قرار دیجئے نامعلوم زبان کے چند جملے دہراتے ہوئے بتا دیجئے کہ فلاں بزرگ نے آج سے5یا7سو سال قبل اس سازش بارے نہ صرف آگاہ کردیا تھا بلکہ یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ سازش اپنے آغاز سے4ماہ بعد ختم ہو جائے گی سہولت کے لئے ماہ جولائی کا ذکر کر دیجئے۔اس ویڈیو کو لاکھوں اہل ایمان لائک وشیئر کر یں گے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری عمومی ذہنی سطح یہی ہے ۔
میں حیران ہوں کہ وزیراعظم کی کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کہہ رہے ہیں کہ اگر ابتداء میں ہی تین سے چار ہفتے کے لئے سخت لاک ڈاون کر لیا جاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کورونا کی اکثر اموات شمار ہی نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر صاحب عالمی شہرت کے حامل سائنسدان ہیں۔سڑک چھاپ عطائی بالکل نہیں۔دنیا بھر میں انہیں بہت احترام سے دیکھا اوران کی بات کو توجہ سے سُنا جاتا ہے۔پھر کیوں حکومت اورخود وزیراعظم نے ان سے استفادہ نہ کیا؟۔
یقین کیجئے میں آپ کو ڈرا نہیں رہا دستیاب معلومات اور متعلقہ موضوع پر مطالعہ کے بعد عرض کررہا ہوں کہ صورتحال پر اب بھی حکومت کو کنٹرول نہیں ہے
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں اولاً حکومت کی غیر سنجیدگی اور ثانیاً برصغیر کا مجموعی مزاج۔”ارے یہ تو کچھ بھی نہیں یہ ہمارے خلاف سازش ہے”۔
سازش کے توڑ کے فٹ پاتھی نسخے اور زیادہ کام خراب کرتے ہیں۔
صاف سیدھی بات ہے حکومت ہر وہ اقدام کرے جس سے لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہوں۔
سب کچھ دوبارہ مل جائے گا بشرط زندگی اورخاکم بدہن ہم ہی نارہے تو پھر؟۔
حرف آخر یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جو بھی اپنے فرائض سے منہ موڑے گا وہ اس ملک اور عوام کا مجرم قرار پائے گا اس لئے سنجیدگی اختیار کیجئے موت کے رقص کو بند کروانے کے لئے ٹھوس اقدامات کیجئے۔

About The Author