یہ سال 1990 کا ماہ جون تھا (غالباً جون نصف گزر چکا تھا)شام کسی وقت لاہور سے واپس گھر شیخوپورہ پہنچا اہلیہ نے دروازہ کھولتے ہوئے بتایا کے ابو آئے ہیں ایک قدم دہلیز کے اندر رکھتے ہوئے میں نے حیران ہوکر نصف بہتر کی طرف دیکھا ، وہ اپنے والد محترم نواب سید فرمان علی زیدی سونی پتی مرحوم کو ہمیشہ بابا کہہ کر یاد کرتیں اور سلام و آداب، پھر یہ آج ابو آئے ہیں ،
انہوں نے میری حیرانی بھانپتے ہوئے وضاحت کی بابا نہیں آپ کے ابو آئے ہیں ، اہلیہ کے اس جملہ نے کہ آپ کے ابو آئے ہیں مجھے جو خوشی عطا کی وہ لفظوں میں بیان کرنا آج بھی بہت مشکل ہے میرے لیے ۔
تیزی سے اُس کمرے کی سمت بڑھا جس میں ابو جان تشریف فرماتھے ، جونہی کمرے میں داخل ہوکر ان کے قدموں کا بوسہ لیا انہوں ڈانٹتے ہوئے کہا ” بخاری صاحب یہ وقت ہے گھر آنے کا جلدی واپس آیا کرو "
یہ الفاظ کہتے ہوئے ابو نے مجھے قدموں سے اُٹھا کر سینے سے لگاتے ہوئے کہا ” میں شہادت کے سفر پر جارہا ہوں سوچا اپنے نالائق بخاری صاحب ( وہ محبت اور غصہ ہر دو صورتوں میں مجھے بخاری صاحب ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ) اور بہو رانی سے ملتا جاوں
میرے والد گرامی میرے غریب خانہ پر پہلی بار تشریف لائے تھے ، مجھ نالائق سے ان کی ناراضگی کی نصف درجن وجوہات رہی ہوں گی اور تھیں بھی ۔ ابو جان فوج سے رخصت ہونے کے بعد سے جماعت اسلامی سے منسلک تھے مجھ سا نالائق آج بھی جماعت اسلامی کا سکہ بند ناقد ہے،
( دوسری فرقہ وارانہ مذہبی جماعتوں کےلیے بھی ہمدردی کی کوئی لہر کبھی دل میں نہیں اٹھی ) والد بزرگوار اور نالائق فرزند کے درمیان نہ نبھنے بننے اور دوریوں کی داستان بہت طویل ہے لیکن اگر کوئی جنت جیسا مقام ہے تو وہ پانچ دن میرا غریب خانہ کسی جنت سے کم ہرگزنہیں تھا جن پانچ دنوں میں والد محترم میرے گھر قیام پزیر تھے ،
باپ بیٹے کے درمیان گزرے 31 سالوں ( اب میں 61 سال کا ہوں ) کی ڈھیروں باتیں ہوئیں حالِ دل دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے رکھا ۔ میں نے محسوس کیا ابو جان جب بھی مجھے دیکھتے یا بات کرتے ہیں تو اُن کی آنکھوں کے کونوں سے آنسو نکل کر داڑھی میں جذب ہونے لگتے ہیں ،
شاید کیا یقینناً یہ لمبی جدائی کے بعد بیٹے کو روبرو دیکھنے والے ہر والد کی حالت ایسی ہی ہوتی ہوگی _ ابوجان پانچ دن میرے پاس قیام پزیر رہے ہمارے درمیان ان سب امور پر بات چیت ہوئی جو وجہ اختلاف رہے ، یا جنکی وجہ سے ابو مجھ سے ناراض رہتے تھے پھر ایک لمحہ وہ آیا جب میرے والد نے مجھ سے کہا ” بخاری صاحب ایک بات ہے _
مجھے تم پر فخر ہے جیسے بھی ہو جیسے بھی رہے ہو تم نے ہمیشہ محنت مزدوری کی اپنے نظریہ پر ثابت قدم رہے اور خاندان کے لیے باعث شرمندگی ثابت نہیں ہوئے ۔ جماعت اسلامی یا مذہبی فہم سے عبارت نظریات تمہیں اچھے نہیں لگتے یہ تمہارا حق ہے ہرشخص اپنے امور کا جواب دہ خود ہوگا ، پتہ نہیں کیوں اُن سموں میں نے اُن کے گُھٹنے چھوتے ہوئے دریافت کیا ، ابو آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟ ،
انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے گلے لگایا اور فرمایا ۔ نالائق انسان ناراض ہوتا تو تمہارے گھر کیوں آتا ، میں تو اپنے جگر کے ٹکڑے کا بساہوا گھر دیکھنے تمہیں اور بہورانی سے ملنے آیا ہوں ۔ دعاوں کے ساتھ چند نصیحتیں انہوں نے فرمائیں اپنی بہو کو کچھ تحائف دیے اور پانچویں دن وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگِے کہ میں اب منصورہ جاوں گا وہاں سے افغانستان ابو جان نالائق بیٹے کو اپنی زیارت کرواکے چلے گئے سال 1990 کی عید الفطر والے دن نماز عید کے کچھ دیر بعد وہ اپنے نظریات کی لاج رکھتے ہوئے ان پر قربان ہوگئے ۔
ایک سچے اُجلے محنت کش اور اپنے نظریہ سے مخلص انسان تھے میرے والد بزرگوار سید محمود انور بخاری شہید زندگی بھر انہوں نے رزق حلال کمایا اور اولاد کو کھیلایا اللہ تعالیٰ اپنے محبوب مکرمؐ کے صدقے ان کی مغفرت فرمائے آمین آج میری نورالعین سیدہ فاطمہ حیدر بخاری نے فادر ڈے پر میرے لیے پیغام لکھا تو مجھے اپنے باباجان کی یادوں نے گھیر لیا یادیں ہیں آنسو ہیں اور کتابوں سے بھرے اس کمرے میں میں ہوں ۔ اپنے رب اور سرکارِ پاک بتولؑ و آپ کے بلند مرتبہ باباجانؐ کا شکرگزار ہوں کے میں اپنے والدین کےلیے باعث شرمندگی نہیں اور میری بیٹیاں بھی فخر کے ساتھ ولدیت کے خانہ میں میرا نام لکھ پائیں گی
یہ سب آپؑ اور آپ کے باباجانؐ کا کرم ہے بی بیؑ کے مجھ سا نالائق استقامت کے ساتھ اپنی فہم کا حق ادا کررہا ہے لاکھوں درودوسلام پاک بتولؑ سینڑ آپ کے بلند مرتبہ باباجانؐ اور اُن کی آلِ اطہارؑ پر پیارے ابو مجھے سال 1990ء کے جنتی فضا میں گزرے پانچ دن کبھی نہیں بھولیں گے انشااللہ میں آپ اور امی جان کےلیے سرکارِ دوعالمؐ کے دربار میں شرمندگی کا باعث نہیں بنوں گا نالائق حیدر جاوید سید( جو فقیرراحموں کہلوا کر خوش ہوتا ہے )
پچھلے سال لکھی گئی ایک تحریر قند مقرر کے طور پہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر