بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔وہ تمام اندیشے اور خدشات درست ثابت ہوئے جن کا اظہار ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے وابستہ دیگر افراد کررہے تھے۔کورونا پوری دنیا میں تباہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی تباہی پھیلا رہا ہے۔ آئے روز کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات میں اضافہ نے معاشی طورپر پریشان حال قوم کو ادھ موا کردیا ہے۔سمارٹ وزیراعظم اس وبا کو عام سا فلو کہتے رہے نتیجہ یہ کے حالات سمارٹ لاک ڈاون کی طرف آگئے ہیں۔اپوزیشن شور مچاتی رہی کہ حکومت لاک ڈاون کو سنجیدگی سے لے حتیٰ کہ وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑ لیئے کہ کورونا کو سنجیدگی سے لیں مگر ان کی اس بات کو حکومتی وزرا کی طرف سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔مدعا یہ کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کورونا پھیلا ہے یا پھیلایا گیا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 81 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور دنیا بھر میں اموات کم وبیش ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہوچکی ہیں۔جبکہ پاکستان کورونا کے مریضوں کی شرح کے حساب سے پندرہویں نمبر موجود ہے ۔پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد کم وبیش ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔اور اموات 28سو سے زیادہ ہوچکی ہیں۔دیگر متاثرہ ممالک کے سامنے عددی اعتبار سے شائد یہ کوئی زیادہ تعداد نا ہومگر جس رفتار سے روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے کیسز پاکستان میں رپورٹ ہورہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ جولائی کے آخر اور اگست کے شروع تک یہ تعداد خدانخواستہ خطرناک حد تک پہنچ جائے گی۔کورونا میں اضافے کے حوالے سے پنجاب کی صوبائی وزیرصحت نے سارا مدعا عوام کو جاہل عوام کہہ کر اس پر ڈال دیا اور خود بری الذمہ ہوگئیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں کورونا سے متاثرین کی تعداد میں ہوشربا ااضافہ ہورہا ہے۔16 جون کے اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں 55 ہزار اور سندھ میں بھی 55 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔اسلام آباد میں 8857 ، آزاد جموں وکشمیر میں 663 ،کے پی کے میں 18472،گلگت بلتستان میں 1143اور بلوچستان میں 8327 کسیز رپورٹ ہوچکے ہیں اور 16 جون تک کورونا کے سبب اموات کی تعداد 2839ہوچکی ہیں۔گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران 4443 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور 111اموات کنفرم ہوئی ہیں۔جبکہ عوامی سطح پر یہ تاثر موجود ہے کہ اموات کی شرح دئیے گئے اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے ۔اسی طرح کورونا کے ٹیسٹنگ کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے کیسز کم رپورٹ ہورہے ہیں وگرنہ یہ تعداد بھی کہیں زیادہ ہے۔
اعتراض اس بات پر نہیں کہ کورونا پھیل رہا ہے۔یقینی سی بات ہے کہ ایک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور امریکہ اور یورپ کے کئی ملک اس وبا سے نہیں بچ پائے تو پاکستان جیسا پسماندہ ملک کیسے بچ پاتا۔اگر اعتراض ہے تو اس رویے پر ہے جو حکومت کی طرف سے کورونا کے حوالے سے اپنایا گیا۔آج نہیں تو کل حکومت کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ کورونا کے حوالے سے اس کی سنجیدگی نا ہونے کے برابر تھی ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے جب ملک کا وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا ہو کہ کورونا ایک عام سا فلو ہے۔تو لازمی بات ہے کہ عوام نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لینا اور ویسے بھی یہ خلاف عقل بات ہے کہ فلو کی خاطر لاک ڈاون کیا جائے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکررہ جائیں۔کاروبار بند کردیں اور ماسک اور سینی ٹائزر جیسے لوازمات سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔وزیراعظم کے غیر زمہ دارانہ بیانات نے کورونا کو عوامی سطح پر ایک مذاق بنا کررکھ دیا اور اب یہ مذاق مہنگا پڑرہا ہے ۔
یہ ملک وقوم کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ کورونا جیسی وبا کے دوران پاکستان میں موجود حکمران اشرافیہ بنیادی طورپر اس اہل ہی نہیں تھی کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرسکتی۔پوری قوم کو ایک نقطے پر مرکوز کرپاتی اور ایک مشترکہ اور متفقہ قومی بیانیہ جاری کرسکتی۔حکومتی زمہ داران کی آئے روز پریس کانفرنسز کو ایک نظر دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک کا موقف دوسرے وزیر سے نہیں ملتا۔اسی افراتفری میں 2020 کا بجٹ بھی پیش کردیا گیا اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ کورونا زدہ لاشوں کے درمیان ملکی معیشت کی لاش بھی رکھ دی گئی اور کورونا کے شور میں کسی کی توجہ اس پر نہیں جارہی کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔اسی دوران پنجاب میں تحریک انصاف کی ممبر صوبائی اسمبلی عظمیٰ کاردار کی آڈیو ریلیز ہوگئی جس میں انکی گفتگو اپنی جگہ پر بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے اور پر بطورترجمان ان کی بطرفی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔
وزیراعظم آج سے کراچی کا دو روزہ شروع کررہے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ یہ دورہ ملک کے وزیراعظم کا ہوگا یا پھر تحریک انصاف کے چیئرمین کا ہوگا۔ویسے سندھ میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ جب سندھ کورونا سے لڑ رہاتھا تو وفاقی حکومت سندھ سے لڑرہی تھی۔وزیراعظم کو چاہیے کہ حالیہ دورے میں اس تاثر کو ختم کریں اور سندھ حکومت کو جن وسائل کی ضرورت ہے اس کی فراہمی کا اعلان کریں۔سندھ حکومت کی کورونا سے متعلق کاوشوں کو جہاں دنیا بھرمیں تسلیم کیا گیا کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کریں اور وفاق کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائیں۔اس کے علاوہ حکومت سے دست بستہ درخواست ہے کہ کورونا سے متعلق ایک متفقہ لائحہ عمل بنائیں اور اس پر عمل درامد کو یقینی بنائیں ۔رہی بات سمارٹ لاک ڈاون کی تو معاملات اس سے آگے نکل چکے ہیں۔سوچیئے جہاں سمارٹ وزیراعظم نہیں چل سکا وہاں پر سمارٹ لاک ڈاون کیسے کامیاب ہوگا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر