دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آم کا اصل وطن ہے ،یہاں سے ہندوستان کے دوسرے شہروں میں آم پہنچا اور پھر پوری دنیا میں چلا گیا
وسیب میں آم کا سیزن شروع ہو گیا ہے ۔ مگر کورونا کی وجہ سے ’’ صلائے آم ‘‘ کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام نہیں ہو رہا مگر تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا جیسی بیماریوں کے مقابلے کیلئے آم کا استعمال انسان کے مدافعاتی نظام کو طاقت ور بناتا ہے ۔
وسیب میں عام کی ایک قسم کا نام ’’ ثمر بہشت ‘‘ ہے ، اس لئے اسے بہشتی پھل کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ وسیب میں آم کیلئے بہت سی روایات ہیں ۔ ایک کہانی یہ ہے کہ صدیوں پہلے ایک بادشاہ آم کا دیوانہ ہو گیا ، ہر وقت آم کے بور کی خوشبو سونگھتا اور آم پک جاتے تو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر مختلف بادشاہوں اور شہزادوں کو بھیجتا ۔ اسی بناء پر آم کو وسیب میں ’’ بادشاہوں کا پھل ‘‘ اور ’’ پھلوں کا بادشاہ ‘‘ کہا جانے لگا ۔
ملتان صدیوں سے آم کا مرکزہے اور آج بھی پوری دنیا میں ’’ ملتان مینگو سٹی ‘‘ اسکی پہچان ہے ۔اس خطے میں تین ہزار قبل مسیح سے آم ہر انسان کا پسندیدہ اور مرغوب پھل چلا آ رہا ہے۔
آم کے بارے میں عراقی مصنف محمد ابوالقاسم بغدادی جنہوں نے 934ء تا 968ء سرائیکی وسیب یعنی وادی سندھ کا سفر اختیار کیا اپنی یاد داشتوں کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اس علاقے میں ایک فروٹ ہے جسے امبہ کہتے ہیں جو بہت مرغوب اور لذیز ہے شکل میں آڑو جیسااس پھل کی بہت پیدوار ہوتی ہے اور یہ بہت سستا ہے۔‘‘
ملتان کے شہزادہ علی محمد خان خدکہ سدوزئی نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الملوک عالیشان‘‘ سال تصنیف 1251ھ میں آم کی صفات بیان کرتے ہوئے اسے پھلوں کا بادشاہ قرار دیتے ہیں،یونانی ایرانی ،افغانی اور عرب فاتحین نے ملتان پر قبضہ کیا تو یہاں کے دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ آم بھی ان کیلئے مرغوب ٹھہرامگر انہیں آم کھانے کا سلیقہ نہیں آ تا تھا پھر ملتانی میں کہاوت مشہور ہوئی ’’امب کوں جایا کھا سگدے آیا نی کھا سگدا ‘‘ اس کا مطلب کہ آم کو دھرتی کا سپوت کھا سکتا ہے باہر سے آیا حملہ آور نہیں کھا سکتا۔
ملتان کے معرف کاشتکار اور مصنف ’’صلائے آم ‘‘ حامد خان درانی لکھتے ہیں کہ’’ قیام پاکستان سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں نے بھی آم کے باغات کو ترقی اور توسیع دینے میں اہم کر دار ادا کیا ان کا کہنا تھا کہ ایک تو پوری دنیا کیلیے آم ہمارے خطے کی بہترین سوغات ہے دوسرا ہندو مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ آم کی لکڑ ی سے جلایا جانیوالا مردہ سیدھا بہشت میں جاتا ہے ۔‘‘
سرائیکی وسیب سے آم ہندوستان کے دوسرے خطوں میں گیا ،سرائیکی وسیب کے باغات سے ہندوستان کے زمیندار اور امراء حتیٰ کہ سلاطین وقت نے بھی باغبانی کی طرف توجہ دی اکبر اعظم کے دور میں لاکھ باغ اور شاہجہاں کا شالیمار باغ میں خصوصی طور پر آم کی پرورش کرائی گئی ۔ سرائیکی وسیب جسے انڈس ویلی ،وادی سندھ اور ’’سپت سندھو‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
آم کا اصل وطن ہے ،یہاں سے ہندوستان کے دوسرے شہروں میں آم پہنچا اور پھر پوری دنیا میں چلا گیا ،آم کی داستان پل دو پل کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں پرانی کہانی ہے مگر اس بارے خاص بات یہ ہے کہ آم پیدا کرنے والا صدیوں پہلے بھی مشکلات کا شکار تھا اور آج بھی مشکلات کا شکار ہے وجہ یہ ہے کہ سرائیکی خطہ جسے زرعی پیداوار اور باغات کی وجہ سے ہمیشہ ’’پیراڈائز‘‘ یا بہشت بریں کہا گیا ،ہمیشہ سے حملہ آوروں کی زد میں رہا ،
تخت دہلی جو حملہ آوروں کے عافیت کدے رہا ،وہاں زراعت اور صنعت وحرفت سے وابستہ افرادکی حوصلہ افزائی ہوئی مگر سرائیکی وسیب نے جو بھی کمال حاصل کیا اپنی ہمت اور اپنی محنت سے کیا آج بھی سرائیکی وسیب پر رنجیت سنگھ کی روح سایہ فگن ہے ۔
وہ رنجیت سنگھ جس نے یہاں کے شہروں کے ساتھ باغات کو بری طرح اجاڑا ، مگر وسیب کے کاشتکار نے اپنے وسیب کوپھر گلستان بنایااور وہ دوسری زرعی پیداوار کے ساتھ آم کی نت نئی اور اعلیٰ ترین ورائٹیاںآج بھی دنیا کو دینے میں مصروف ہے۔ سرائیکی وسیب میں آموں کی مختلف ورائٹیوں کے سینکڑوں نام ہیں یہ نام آموں کی شکلو شباہت ،ذائقے ،اورخطے کے حوالے سے ہیں، اب تو نام اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ کاشتکاروں نے اپنے اپنے علاقوں اور اپنے بزرگوں کے نام سے بھی آم کی ورائٹیاں تیار کی ہوئی ہیں آم مشہور ورائٹیوں میں ثمر، بہشت، انور رٹول، سندھڑی ،لنگڑا، دُسیری، مالٹا ۔
اسی طرح دوسرے سینکڑوں ناموں کا مختصر مضمون میں ممکن نہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سینکڑوں نام آم کی اہمیت اورپیدواری وسعت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔اصل تخمی آم ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ،سرائیکی وسیب میں اسے ’’دیسی ‘‘ آم بھی کہا جاتا ہے ،دیسی آم کی بہت سی ورائٹیاں جن کے الگ الگ ذائقے الگ الگ ر نگ اوران کے الگ الگ وزن ہیں ۔تخمی یا دیسی آم میں پیوندکاری ہوئی اور آم کی نئی نسل ’’ پیوندی آم‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی ۔پیوندی آم کو قلمی آم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا پیوند آم کی ’’قلم ‘‘ سے ہوتا ہے ،یہ آم برائیلر مرغی کی طرح وزن میں بھاری اور عمر میں کم ہوتا ہے اس آم کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آم خود رو پودا نہیں اور یہ ایسی فصل بھی نہیں جو بغیر محنت کے تیار ہو جائے آم کے کاشت سے لیکر اسے ثمر آور بنانے تک بہت زیادہ مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے ،وسیب کے بزرگ کاشتکاروں کا مقولہ ہے کہ آم کا ایک بوٹا ایک بیٹا جوان کرنے کے مترادف ہے خصوصاً ان حالات میں جہاں پانی کی کمی ہو اور کاشتکار دور سے گھڑوںمیں پانی بھر کر آم کے پودوں کو سیراب کریں ،اتنی مشقت کے باوجود سرائیکی وسیب کے کاشتکار کو اس کا معاوضہ نہیں ملتااور’’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘والا معاملہ ہو جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے کسی شہر سے آم ایکسپورٹ نہیں ہوتا آم کراچی کا تاجر ایکسپورٹ کرتا ہے ۔
اور وہ ایک پیٹی آم کی قیمت صرف ایک دانہ آم سے نکالتا ہے ،یعنی وہ جتنی قیمت میں ایک پیٹی وزن 10کلو خرید کرتا ہے ،اتنی قیمت میں آم کا ایک دانہ وزن نصف کلو بیرون ملک فروخت کرتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کے شہروں سے آم ایکسپورٹ کرنے کی سہولت مہیا کی جائے ۔

About The Author