وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم عثمان محمود نے آن لائن کلاسز کے حوالے سے طلبہ کو درپیش مشکلات کا تذکرہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے کیا تو اسے ڈسپلن کی خلاف ورزی گردانا گیا۔
یونیورسٹی کی جانب سے عثمان کو ایک نوٹس دیا گیا جس میں اسے ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا حالانکہ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ناسازی طبع کے باعث جب وہ پیش ھونے سے قاصر رہا تو اس کا موقف سنے بغیر بیک جنبش قلم اس کا یونیورسٹی میں داخلہ ختم کردیا گیا۔
یہ ایک یونیورسٹی کا حال ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا دعویٰ کرتی ہے، جہاں سوچ اور فکر پر پہرے ہوں وہاں کیسے سائنسدان جنم لیں گے۔ جہاں سوال اٹھانے پر پابندی اور آزادی اظہار پر قدغن ہو تو ایسے ادارے کو یونیورسٹی کیسے کہا جا سکتا ہے؟
آج پاکستان کی زیادہ تر جامعات میں طلبہ کو یونیورسٹی فیس سے لے کر ٹرانسپورٹ، ہاسٹل، تعلیمی معیار، جنسی ہراسگی اور مختلف قسم کے دیگر مسائل کا سامنا ھے۔
المیہ یہ ھے کہ طلبہ کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں میں یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ تو شریک ھوتے ہیں لیکن طلبہ کی ان میٹنگز میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور موجودہ حکومت نے تو نوجوانوں کی حمایت پر ہمیشہ ناز کیا لیکن مجال ھے کہ کوئی جماعت نوجوانوں کے ایشوز پر پالیسی بنانا تو درکنار، ان کے ایشوز پر آواز بلند کرنے کی بھی روادار ہو۔
بھلا ھو پیپلزپارٹی کے نوجوان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا جو سینٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، انہوں نے اس معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کو سینیٹ کمیٹی میں طلب کرلیا۔
میں بطور استاد یونیورسٹی انتظامیہ کے اس رویہ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ