اسلام آباد:سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کوغیرقانونی قرار دینے کےلیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
انہوں نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیاہے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل غیرقانونی و غیر آئینی ہے۔
ریکوری یونٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس اور ان کی فیملی کےخلاف اقدامات غیرقانونی ہیں
چیئرمین ریکوری یونٹ شہزاد اکبراورماہرقانون ضیا المصطفیٰ کی تقرری غیرقانونی ہے۔
شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ کوعہدوں سے ہٹانے کا حکم دیا جائے،
شہزاد اکبر اورضیا المصطفیٰ سے تنخواہ اور مراعات واپس لینے کا حکم دیا جائے
شہزاد اکبراورضیاالمصطفی کے مشورے اور ان کی بنا پرلیے گئے اقدامات کو غیرقانونی قرار دیا جائے،
25جولائی 2019 سے شہزاد اکبر اور ضیاء المصطفی نسیم کے بارے میں معلومات طلب کیں ہیں جو فراھم نہیں کی گئیں۔۔
شہزاد اکبر اور وفاقی حکومت نے درخواست گزارکے وکلا کے دسمبر میں دلائل ختم ہونے کے بعد جون میں جواب جمع کرائے
ان جواب کی کاپیاں ھمیں موصول نہیں ہوئیں
شہزاد اکبر اور وفاقی حکومت جو فریق ہیں وہ فروع نسیم کے ماتحت رہے۔۔۔
اے آریو کی تشکیل سے متعلق جو جواب جمع کرایا گیا ہے اس میں کسی قانون کا زکر نہیں۔۔
اس کا مطلب یے کہ اے آر یو کا ادارہ قانون کے بغیر تشکیل دیا گیا
آے آر یو کی تشکیل کے لئے گزٹ آف پاکستان کی کوئی پبلیکیشن موجود نہیں
مرزا شھزاد اکبر نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ وہ تنخواہ اور مراعات نہیں لیتا۔
یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ تنخواہ اور مراعات کے بغیر زندہ کیسے ہیں؟
کیا مرزا شھزاد اکبر کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت ہیں۔ ؟
کیا وہ اپنے وکیل کی سروسز پر ان کو فیس ادا کررہے ہیں؟
کیا شھزاد اکبر اے آر یو کی جانب سے رکور کی جانے والی رقم کے 20 فیصد روارڈ حاصل کرتے ہیں؟
شہزاد اکبر نے اپنے معاون خصوصی کی تعیناتی کے بارے میں وضاحت نہیں کی۔
20 اگست 2018 کو شھزاد اکبر کو معاون خصوصی تعینات کیا جاتا ہے اسی دن کابینہ کو بریفنگ دیتے ہیں۔۔
20 اگست کو کابینہ کی میٹنگ رکھی جاتی ہے،اس میں معاون خصوصی جو کابینہ کے میمبت نییں ھوتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔۔
کابینہ کی اس میٹنگ میں معاون خصوصی اے ار یو پر بریفنگ دیتے ہیں۔۔
اس دن کابینہ ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیتی ہے جو تین میمبرز پر مشتمل ہوتی ہے۔۔
اس میٹنگ کے منٹس کابینہ سیکریٹری کی عدم موجودگی میں دوسرا سینیئر آفیشل منٹس پر دستخط کرتا ہے۔۔۔
کیسے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اے آر یو میں نیب،ایف آئی اے ، ایف بی آر اور سٹیٹ بنک سے افسران غیر قانونی تشکیل شدہ ادارے میں تعینات کئے گئے۔۔
اے ار یو کی تشکیل اور اس کو طاقتور اور بااختیار بنانے کے لئے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔
اے آر یو کے عالمی قوانین کے ماھر ملازم ضیاء المصطفی کے بارے میں صحیحی معلومات فراھم نہیں کی گئیں۔۔
کیسے اور کس کرائٹیریا پرضیاء المصطفی کی تقرری کی گئی۔
عدالتی احکامات کے باوجود اے ار یو کی جانب سے اب تک کی حاصل کی گئی جائیدادوں کے بارے میں تفصیلات فراھم نہیں کیں۔۔۔
سرکاری اوقات کے بعد کیوں اے ار یو کی سرکاری میٹنگزخفیہ طورپر شھزاد اکبر کے گھر ہوتی ہیں۔۔؟
یہ بھی پڑھیے:سپریم کورٹ:صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال
اے آر یو کی ویب سائیٹ کیوں نہیں؟
اے ار یو کی میٹنگز کے منٹس دستخط شدہ کیوں نہیں ہوتے؟
کیوں اے ار یو معلومات پبلکلی ظاھر کرتا؟
اے آر یو کے اکائونٹس کو قوانین کے مطابق آڈٹ کیا جاتا ہے؟کیوں آڈٹ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش کی جاتیں۔؟
مرزاشھزاد اکبر مفت میں اے ار یو میں کیوں کام کررہے ہیں؟
20 فیصد ملنے والی رقم کس کے جیب میں جاتی ہے؟
کیا روارڈ کے طور پرملنے والی رقم کو ادرے میں تقسیم کی جاتی ہے؟
ایسی معلومات کو عام کیوں نہیں کیا جاتا؟
سرچ انجن com.192کے مطابق شھزاد اکبر کی لندن میں 5 جائیدادیں ہیں۔۔
زلفی بخاری کی 7،عثمان ڈار کی 3،عمران خان نیازی کی 6، جھانگیر ترین ایک،پرویز مشرف کی 2 پراپرٹیز ہیں
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ