جب افکارِ تازہ کو دماغوں میں گھسنے سے روکنے کے تمام ہتھیار اور حربے یکے بعد دیگرے کند ہونے لگیں تو پھر تازہ نمو بخش نظریات کو وبائی شکل میں پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک آخری ہتھیار میدان میں لایا جاتا ہے، ’ہماری ثقافتی اقدار خطرے میں ہیں، ہمارا اسلام، ہندوتوا، عیسائیت، یہودیت، بودھ مت، لادینیت خطرے میں ہے۔‘
یوں ازہان کی تشکیلِ نو کا عمل مزید کچھ عرصے کے لیے ملتوی تو ہو جاتا ہے۔ البتہ حالات کا جبر بھی ساتھ ساتھ بطور سودِ مرکب بڑھتا جاتا ہے اور ایک دن ہر بند ٹوٹ جاتا ہے اور سب اچھا برا بہا لے جاتا ہے۔اب یہ آپ کی قسمت کہ اس سیلاب کے دوران انقلاب کے موتی ہاتھ آتے ہیں کہ انارکی و بربادی کا کوئی طویل سیاہ دور۔
بالکل اسی طرح جب نااہلی ہی معیارِ اہلیت قرار پائے، ریاست بظاہر ’قائد کا فرمان کام کام اور صرف کام‘ کی تسبیح پھیر رہی ہو مگر عملاً ’ کام جوان کی موت ہے‘ کے نظریے پر راسخ ہو۔ وہاں بیدار مغزی، ٹیلنٹ پول اور متعلقہ شعبوں و اداروں کی مشاورتی یکسوئی و یکجائی کی مدد سے کسی بھی سنجیدہ و سنگین چیلنج سے نمٹنے کی توقع اپنے ہی منھ پر مل لینی چاہئے۔
سامنے کی مثال کورونا کی ہے۔ باقی دنیا نے اس کا سامنا قومی وسائل کی یکجائی کے ساتھ سخت لاک ڈاؤن اور اس کے نفاذ کو زود ہضم بنانے کے لیے معاشی پیکیجز کے انجکشنز سے کیا۔ یوں وائرس کا زور توڑنے میں کہیں مکمل تو کہیں جزوی کامیابی حاصل کی۔
مگر ہمارے ہاں روزِ اول سے عام آدمی کی تو چھوڑئیے خود ریاست نے کورونا کے مقابلے میں عامیانہ پن اختیار کر لیا۔ یہ کسی راہ چلتے نے نہیں بلکہ وزیرِ اعظم نے کہا کہ کورونا محض ایک فلو ہے اور اس میں صرف بوڑھے لوگ مرتے ہیں اور وہ بھی دو ڈھائی فیصد۔ پھر فرمایا کہ لاک ڈاؤن کیا تو لوگ بھوکے مر جائیں گے، پھر فرمایا کہ لوگوں نے اگر اس بیماری کو سنجیدہ نہیں لیا تو لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا، پھر فرمایا کہ ملک دوسری بار لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا، پھر فرمایا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔
پھر ایک مشیرِ باتدبیر نے فرمایا کہ عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے چار ہفتے کے مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش پر عمل کرنا مشکل ہے، عالمی ادارہِ صحت تو محض وبا کو دیکھ رہا ہے ہمیں مجموعی حقائق دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لاک ڈاؤن بمقابلہ بھوک کی بحثیانا ڈھال کے پیچھے ریاستی بے عملی نے پناہ لینے کی کوشش کی۔ تادمِ تحریر یہاں کورونا سے لگ بھگ تین ہزار اموات ہو چکی ہیں لیکن بھک مری کے سبب ایک بھی رجسٹرڈ موت سامنے نہ آ سکی۔ حالانکہ بھک مری کی تلوار کورونا سے پہلے بھی لٹک رہی تھی اور بعد میں بھی لٹکتی رہے گی۔
دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا ملک ہو جہاں کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کا خالص انتظامی و طبی فیصلہ سوائے طبی ماہرین کے کسی اور کے مشورے سے کیا گیا ہو۔ مگر پاکستان میں ریاستی بے عملی نے علما، کاروباریوں اور ججوں سمیت ہر شعبے کی اینٹی لاک ڈاؤن بھاوناؤں کو پوری اہمیت دی مگر طبی ماہرین کی ایک نہیں سنی۔
نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً پانچ سو ڈاکٹر اور نیم طبی کارکن وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور 38 ڈاکٹرز اور چار پیرا میڈکس سمیت 42 ہراول سپاہی اپنا فرض نبھاتے ہوئے اب تک شہید ہو چکے ہیں۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ لاک ڈاؤن کے کتنے مخالف علما، جج، وزرا، ساہوکار و صنعت کار اب تک ڈاکٹروں، قانون نافذ کرنے والوں یا میڈیا کارکنوں کی طرح فرض نبھاتے ہوئے کام آئے؟ البتہ ان کے فیصلوں کے سبب کام آنے والوں کی تعداد تین ہزار کو ضرور چھو رہی ہے اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
پہلے کہہ رہے تھے گھبرانا نہیں کورونا جون میں عروج تک پہنچے گا اور پھر زوال شروع ہو جائے گا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ عروج جولائی یا اگست میں آئے گا اور پھر زور ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ مگر یہاں بھی آدھا سچ بولا جا رہا ہے، زور ان ممالک میں ٹوٹا ہے جنھوں نے زور توڑنے کے لیے لاک ڈاؤن سمیت سخت تدابیر کیں۔
مگر برازیل کے صدر بولسنارو، امریکی صدر ٹرمپ اور حکومت سویڈن کی طرح جن ممالک نے اسے مذاق سمجھا وہاں زور ٹوٹنے کا فیصلہ ریاست کے ہاتھ سے نکل کر کورونا کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی انہی عقل مند ممالک میں ہو رہا ہے جہاں اب جو بھی فیصلہ کرنا ہے کورونا کو ہی کرنا ہے۔
جس ملک کے صحت بجٹ میں کورونا بھی ایک پیسے کا اضافہ کروانے میں ناکام ہو جائے اس ملک کا مقدمہ مقدر کی عدالت میں لڑنے کے لیے شاید جناح جیسا وکیل بھی آج ہاتھ اٹھا لیتا۔ کہنے کو یہ ملک اگرچہ جناح نے ہی لے کر دیا تھا، مگر اس غریب کو بھی کہاں اندازہ تھا کہ اس کے بعد کیسا کیسا۔۔۔
بشکریہ بی بی سی اردو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ