کسی بھی ملک پر حکومت کرنے والی ایلیٹ بہت سمجھدار اور عقل مند ہوتی ہے ۔اس حکمران اشرافیہ کو علم ہوتا ہے کہ کس طرح عوام کی توجہ تقسیم کرکے حکمرانی کرنی ہے اور اصل ایشوز پر سے توجہ ہٹاتے ہوئے کس طرح نان ایشوز کو عوام میں لا کر ان کو ڈسکس کرنا ہے۔اور کس وقت پھر سے کوئی نیا موضوع چھیڑ دینا ہے۔عوام کی نبض پر ہاتھ ہی اصل طرز حکمرانی ہے اور جس نے بھی نبض پر ہاتھ رکھ ٹھیک طریقے سے رفتار معلوم کرلی تو سمجھو لیں کہ معاملات کنٹرول میں ہیں۔رہی بات عوام کی توجہ ہٹانے کی تو اقتدار کی غلام گردشوں میں ہٹو بچو کا شور مچانے والے درباری بہت۔میڈیا ،سوشل میڈیا اور سرکاری میڈیا بطور ٹولز استعمال ہوتے ہیں اور اس بار جس قدر کامیابی سے یہ ٹولز استعمال ہو رہے ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
اگر آپ پڑھے لکھے ہیں اور زیادہ نہیں تو روزمرہ کی خبریں سنتے اور اخبار پڑھتے ہیں اور یاروں دوستوں کے ساتھ سیاسی گپ شپ بھی رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے سیاسی معروض سے کسی حد تک آشنا ہیں۔اب ایک لمحہ رک کر تھوڑا سا پرسکون ہوکر سوچیں کہ اس وقت عوام کے اندر کیا چل رہا ہے ۔تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ دو ماہ کے لاک ڈاون کے سبب عوام اور خاص طور پر دیہاڑی دار طبقہ معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ کورونا وبا کے خوف سے عام شہری نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔تعلیمی ادارے بند ہیں اور سفری سہولیات پر حکومتی بندش نے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔شہروں میں کاروباری طبقہ دوکانوں کی بندش اور دیہاتوں میں کسان ٹڈی دل کی آمد کے سبب پریشانی کا شکار ہیں۔ کیا یہی مشکلات در پیش ہیں ناں کوئی اور تو نہیں ہیں۔
اب زرا غور کریں کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت مندرجہ بالا مسائل کے حل کے لیئے کوئی منظم طریقہ کار وضح کرتی مگر ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ حکومتی وزیر مشیر میڈیا پر کرپشن کے خلاف راگ الاپ رہے ہیں۔سیاسی مخالفین کی کرپشن کی داستانیں اپنے ساتھیوں کے چینی اسکینڈل کے ساتھ ملا کر سنا رہے ہیں۔آئے روز کوئی وزیر یا مشیر میڈیا پر بے معنی پریس کانفرنس کرتا نظر آتا ہے جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔کرپشن کے خلاف مینڈیٹ لے کر آنے والی جماعت اگر کرپشن کے خلاف کچھ کررہی ہے تو یہ اس کا فرض ہے اس میں چھلانگیں لگانے کی کیا ضرورت ہے۔جو کرنے کے کام ہیں ان پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔نجی نیوز چینلز کے ٹاک شوز نے الگ اودھم مچایا ہوا ہے بجائے اس کے کہ وہ عوام کی مشکلات کی نشاندہی کریں وہ سارا وقت حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے مابین دنگل کرانے میں مصروف ہیں۔
موجودہ سیاست میں فال نکالنے کے لیئے طوطے کا کردار جس کو سونپا گیا ہے وہ موجودہ وفاقی وزیر ریلوئے ہیں۔جس کی اپنی وزارت کی حالت ابتر ہوچکی ہے۔درجنوں لوگ ٹرین میں آگ لگنے سے جل کر راکھ ہو گئے اور آئے روز ریلوئے پھاٹک پر ہونے والے حادثات میں جہاں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں سے لاتعلق اور بے خبر وزیر موصوف کے پاس اپنی وزارت کی کارکردگی کے سوا باقی تمام اندر کی خبریں ہوتی ہیں۔کب نیب حرکت میں آئے گا اور کب گرفتاریاں ہوں گی اور کون کون جیل جائے گا کی سب اطلاعیں وزیر ریلوئے کے پاس ہوتی ہیں۔
بطور قوم اس سے زیادہ انحطاط اور پستی کا عالم کیا ہوسکتا ہے کہ لداخ میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والی مکوں ،گھونسوں اور لاتوں سے ہونے والی لڑائی پر حکومتی جماعت کے ورکرز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔کیا کوئی اس بات کا جواب دے گا کہ جناب جب انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حالت کو ختم کرکے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کیا تو آپ کے وزیراعظم نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میں اب انڈیا سے جنگ شروع کردوں۔اور پھر اسی حکومت نے یہ مدبرانہ فیصلہ کیا کہ ہر جمعہ کو آدھا گھنٹہ احتجاج کیا جائے گا اور دنیا کے سامنے کشمیر کا مسلئہ اجاگر کیا جائے گا۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ مستقبل میں کیا آپ سے کشمیر کے ایشو پر اس مدبرانہ فیصلے سے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔یاد رکھیں سوال بھی ضرور ہو گا اور آپ کو جواب بھی دینا ہوگا۔
مہنگائی کا طوفان،ٹیکسز کی بھرمار اور امن وامان کی ابتر صورتحال کے ساتھ ساتھ قرضوں کی بہتات اور معاشی سرگرمیوں پر جھوٹ پر جھوٹ تو اب تک کی یہ ہے حکومتی دوسالہ کارکردگی۔ 2019 میں قومی شرح نمو کو تین اشاریہ تین فیصد ظاہر کر کے جھوٹ بولنے والوں سے سوال تو ضرور ہوگا کہ اصل شرح نمو تو ایک اشاریہ نوفیصد تھی تو جھوٹ کیوں بولا تھا۔جواب دینے والے تب تک سوچ لیں شائد ان سے اس جھوٹ کا کوئی جواب بن پڑے۔سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے میڈیا پر افواہیں گرم رہیں کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے اس ضمن میں معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے ٹوئیٹ کرکے بتایا کہ ان کی سابق صدر سے بات ہوئی ہے وہ ٹھیک ہیں اور جب انہوں نے سابق صدر سے حکومتی کارکردگی سے متعلق سوال کیا تو سابق صدر کا جواب بھی سوالیہ تھا کہ
اور یہی سوال قارئین سے ہے کہ کیا کہیں پر آپ کو حکومت کی موجودگی کا احساس ہورہا ہے۔اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ خوش نصیب انسان ہیں اور اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو پھر آپ بھی میری طرح صبر کے ساتھ انتظار کریں کیوں کہ یہ تو طے ہوچکا ہے کہ یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔اب دیکھیں کب تک اور کہاں تک اس کو چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کب حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ