نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ یادیں پرانی ۔۔۔ امام بخش

میرا تعلق بھاولپور کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے۔ میٹرک کے بعد میں لاہور چلا گیا اور وہاں نائب قاصد کی ملازمت سے کیریئر شروع کیا۔ میں کالج اور یونیورسٹی کا باقاعدہ سٹوڈنٹ نہیں رہا۔ ہاں، البتہ میں نے ایوننگ شفٹ میں ایم سی ایس کی کلاسیں باقاعدگی سے پڑھی ہیں۔

ایم سی ایس کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے کلاس فیلوز رضوان سعید، فرقان خان، عبدالغفار، محمد عمران، سرفراز مجید، مدثر انور نظامی اور کامران عابد سے بہت زیادہ دوستی ہو گئی۔ یہاں ہمارے فرینڈز گروپ میں دوسری یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس خالد مجید (سرفراز کا جُڑواں بھائی)، ثاقب سبحانی، کاشف ضیاء، قمر ضیاء چٹھہ، کاشف عرفان اور مہر اکبر بھی شامل ہو گئے۔ اِن دوستوں میں کچھ ممی ڈیڈی برگر بچے تھے اور کچھ میری طرح پینڈو لیکن ہر بندہ مختلف خصوصیات کا حامل تھا۔ ہمارے گروپ میں مدثر نے قلندرانہ باتوں کی وجہ سے قلندر کے نام سے شہرت پائی۔ عمران کو مولوی اور سرفراز کو ہم پیٹھا کہتے تھے۔ عبدالفغار جو لیّہ کے ایک گاؤں سے آیا تھا، عادتوں کے حساب سے انتہا کا پینڈو تھا، دوستوں نے اس کا نام لیّہ رکھ دیا۔ اُس دور کی اِس تصویر میں میری بائیں طرف لیّہ اور بائیں طرف مولوی عمران ہے۔

اِس گروپ میں مختلف خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے ہر دوست نے اپنے طریقے سے دوستوں کو خوب انٹرٹین کیا۔ اِن میں لیّہ کا نام بڑے اِنٹرٹینرز میں شامل رہا، جب وہ نیا نیا لاہور آٰیا تو اپنے آپ کو کمرے بند کر کے دھاڑیں مار مار رویا کرتا اور پروفینشل رودالیوں کی طرح اپنے گاؤں کی ہر چیز کا نام لے لے کر بین ڈالتا۔ سب دوست اِن لمحات کو خُوب انجوائے کرتے لیکن بعد میں پڑھائی چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانے کی ضد کرتے لیّہ کو صدقِ دِل سے تسلی دیتے اور مستقبل سنوارنے کی ترغیبات سے مطمئن کر لیتے۔

لیّہ کا ٹریفک والی سڑک پار کرنے کا منظر لاجواب ہوتا تھا۔ سڑک پار کرنے کے لیے آگے جُھکتے، ایک دو قدم آگے بڑھاتے اور گاڑی دیکھ کر جھٹ سے واپسی کے لیے دوڑ لگاتے لیّہ پر فرقان خان کی کومنٹری ہمیں آج بھی ہنسا ہنسا کر بے حال کر دیتی ہے۔

فرقان خان جب شرارتی مُوڈ میں ہوتا تو اپنی من گھڑت باتوں سے لیّہ کو کنفیوژ کر دیتا۔ بعض اوقات تو لیّہ کو پینڈو ہونے کے طعنے کے ساتھ کہہ دیتا، "جا اپنی مُونچھیں دیکھ، ایسی ٹیڑھی مونچھوں میں ایک دم کارٹون لگ رہے ہو”۔ بے چارہ لیّہ آئینے میں اپنی مُونچھیں اچھی طرح دیکھتا کہ صحیح تراشی ہوئی ہیں یا نہیں۔ جب اُس کی تسلی نہ ہوتی تو وہ معصوم سا مُنہ بنائے اپنے سب سے بھروسے والے شخص یعنی میرے پاس آتا اور فرقان کو گالی دے کر کہتا کہ کیا واقعی اُس کی مُونچھیں ٹیڑھی تراشی ہوئی ہیں یا فرقان بکواس کر رہا ہے۔ میں اُس کی مُونچھیں غور سے دیکھنے کی ایکٹینگ کے بعد کہہ دیتا، ہاں یار تیری مُونچھیں واقعی ٹیڑھی تراشی ہوئی ہیں۔ اِس کے بعد لیّہ کی بے بسی دیکھنے لائق ہوتی اور ہم خوب انجوائے کرتے۔ لیّہ کی سادگی کی انتہا دیکھیئے کہ فرقان خان نے اُس کی مُونچھوں کے فرضی ٹیڑھے پن کو بار بار تختہ مشق بنایا اور لیّہ نے پورا یقین کیا۔

اُس لااُبالی دور میں ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے سے مذاق کرتے، لڑتے جھگڑتے، ناراض اور راضی ہوتے ہوئے یہ وقت بہت زبردست انداز میں گذارا، جسے ہم آج بھی ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔

آج بائیس سال بعد بھی اِس گروپ کا خوب یارانہ ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے بہت مخلص ہیں اور ان کا تعلق بھائیوں سا ہے۔ آج یہ سب دوست دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا بزنس کر رہے ہیں یا پھر بڑے عہدوں پر کامیاب زندگی گذار رہے ہیں۔ اِن سب کا ایک دوسرے سے بھائیوں ایسا تعلق آج تک قائم ہے۔

لیّہ آج کل وطنِ عزیز کے ایک تحقیقاتی ادارے میں اعلٰی عہدے پر تعینات ہے۔ موصوف ڈیشنگ پرسنیلٹی کا حامل ہو چکا ہے اور اتنا تیز ہو چکا ہے کہ ہم سب کے کان کتر لے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے۔ ہمیں ایسی ایسی جُگت لگاتا ہے کہ ہماری سٹی گُم ہو جاتی ہے۔ جب کسی نیشنل ٹی وی پر ہم اُس کے انٹرویوز دیکھتے ہیں تو ایک بار ضرور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ وہی لیّہ ہے جسے ہم للّو بنا کر خوب مذاق اُڑایا کرتے تھے۔

بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے پچھلے دس سالوں میں لیّہ کو میں فقط تین بار ہی مل سکا ہوں۔ پچھلے دنوں ہم نے پلان بنایا ہے کہ وہ بہت جلد میرے پاس آئے گا اور سیر سپاٹے کی بجائے ہم بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں کریں گے اور پرانی یادیں تازہ کریں گے۔

تین چار دن قبل بھائیوں ایسے عزیز میرے دوست لّیہ کا کورونا ٹیسٹ پوزیٹو آیا ہے اور وہ قرینطینہ میں ہے۔ میں جب فون پر لیّہ سے بات کرتا ہوں تو وہ مشکل سے سانس لیتے ہوئے اپنی گفتگو سے مجھے رُلا دیتا ہے۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ لیّہ بھائی کی سلامتی، صحت اور مسرت کے لیے تہہ دل سے دعا کریں کہ باری تعالیٰ اُسے صحتِ کاملہ عطا فرمائے (آمین)۔

About The Author