دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھولے لال، لال قلندر اور لال اینٹوں کی تہذیب۔۔۔رانا محبوب اختر

جھولے لال بڑا ہوا تو باپ اسے گورکھ ناتھ کے پاس لے گیا۔گورکھ ناتھ نے اسے دیکھ کر کہا:''میں نہیں یہ مجھے پڑھا سکتا ہے

جھولے لال نصرپور میں رتن چندر کے گھر چیت کے چاند کے پہلے دن پیدا ہوئے۔ بچے کا نام اودے چند رکھا گیا، سنسکرت میں اودے چاند کی روشنی ہے۔پنجاب سے آئے نجومی نے بچے کا نام اڈیرو لال رکھا۔نصر پور کے لوگوں نے اسے امر لال کہا۔بچے کا جھولا ہر وقت چلتا تھا۔ اس لئے جھولے میں لیٹا لال یا بیٹا، جھولے لال کہلایا!لال اور لالہ سندھی، سرائیکی اور پنجابی کے علاوہ بھی کئی زبانوں میں مستعمل ہیں۔لال، کرشن کا لقب بھی ہے ۔ٹھٹھہ کے حاکم مرکھ شاہ کا ہندووں کو زبردستی مسلمان ہونے کا الٹی میٹم ختم ہونے کے نزدیک آیا تو اس نے پنچ کو بلا کر اوتار کا پوچھا۔پنچ نے بتایا کہ وہ دریا کے اوتار کی صورت پیدا ہو چکا ہے۔ شاہ کا وزیر آہیریو تصدیق کرنے گیا تو زہر آلود پھول کی پتی ساتھ لایا کہ ہیرے کا جگر کاٹ دے۔آہیریو( Ahirio) بچے کی خوب صورتی سے متاثر ہوا مگر اچھے وزیر کی طرح اس نے حکم کی تعمیل میں پھول کی پتی بچے کے ہونٹوں کی طرف بڑھا دی ۔ بچے نے پتی کو پھونک مار اڑا دیا۔ وزیر نے دیکھا کہ جھولے میں بچے کی جگہ ایک سفید ریش بزرگ سوتا ہے۔ پھر وہ سولہ سال کا جوان بن گیا۔منظر بدلا تو آہیریو نے دیکھا کہ اڈیرو لال تلوار سونتے گھوڑے کی پشت پر سوار ہے اور اس کے پیچھے ایک بڑی فوج ہے۔ وزیر نے جانا کہ وہ دریا کا اوتار ہے تو بولا:”سندھو بادشاہ مجھ پر ترس کرو ۔ سندھ میں ہندو محفوظ ہیں۔”آہیریو نے یہ ماجرا مرکھ شاہ کو سنایا۔مرکھ نے اس رات خواب میں اڈیرو لال کو دیکھا اور ہندووں کو مارنے کے ارادے کو فسخ کیا!
جھولے لال بڑا ہوا تو باپ اسے گورکھ ناتھ کے پاس لے گیا۔گورکھ ناتھ نے اسے دیکھ کر کہا:”میں نہیں یہ مجھے پڑھا سکتا ہے۔”رسمی طور پر گورکھ ناتھ نے اسے ”الکھ نرنجن”سکھایا۔سنسکرت میں الکھ کے معنی ایک اور نرنجن کے معنی بے عیب ہے۔ دسویں صدی میں ٹلہ جوگیاں پہ گورکھ ناتھ نے دھونی رمائی تھی۔کن پھٹے جوگیوں کا سلسلہ۔ گورکھ ناتھ سے رابطہ کا مطلب یہ ہے کہ اڈیرو لال دسویں صدی کا قصہ ہے۔ گورکھ پنتھی بالناتھ نے عرصہ بعد رانجھے کے کانوں میں عشق کے ”مندرے”ڈالے تھے اور ہیر ، رانجھے میں ”یار”کا پرتو دیکھتی تھی:
رانجھن ڈھونڈن میں چلی، مینوں رانجھن ملیا ناہیں
رب ملیا، رانجھن نہ ملیا، رب رانجھن ورگا ناہیں
ہیر کا رنگ پور سیتا کے سیت پور سے سو کلو میٹر دور ہے۔مگر عورت کے معاملے میں زمانی اور زمینی فاصلے بے معنی ہیں کہ سیتا سے سسی اور ہیر سے بے نظیر تک عورت کتھا آگ سے روشن ہے!
جھولے لال کا ایک نام دریا شاہ ہے۔مرکھ شاہ کو سزا دینے سندھ کا پانی سیلاب بنا تو آہیریو نے سندھ کنارے عبادت کی اور جھولے لال کو پلہ مچھلی پر بیٹھ کر روہڑی کی طرف جاتے دیکھا۔پھر مرکھ شاہ کی اڈیرو سے ملاقات ہوئی اور وہ پشیمان ہوا۔تب اڈیرو نے کہا: ”جو تم اپنے گرد دیکھتے ہو ایک خدا کے بندے ہیں۔جسے تم اللہ اور ہندو ایشور کہتے ہیں۔” اڈیرو نے ہندووں کو امن سے رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ وہ مندر میں دیئے جلائیں اور پانی”ڈات”(holy sip) کے لئے رکھیں۔جیوتی اور جل۔ اس کے بعد اڈیرو نے اپنے چیلے پگد کے ساتھ سندھ کا سفر کیا اور سکھر زندہ پیر کی درگاہ کے ساتھ”اڈیرو گھاٹ”اترا۔ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر گورکھ ناتھیوں کے ہنگلاج مندر گیا اور کراچی کے ساتھ”لال سائیں مندر”کی بنیاد رکھی۔دریا پنتھیوں کے لئے سات نشانیاں اہم ہیں۔ویڑھو یا انگوٹھی، کہ انگوٹھی وعدہ اور بندھن ہے۔جیوتی یا آگ دوسری نشانی ہے۔ پاکھر یا فریدی رومال جیسا کپڑا، اور دیگ، تیسری اور چوتھی نشانیاں ہیں ۔وشنو کی تیغ پانچویں ، شو کا ڈمرو چھٹی اور جھاڑی یا کلش یعنی تانبے کا لوٹا برہما کی علامت اور ساتویں نشانی ہے۔اڈیرو لال نے پنجڑا گانے اور پلو پھیلا کر دعا مانگنے کی ہدایت کی۔ سندھ وادی میں ”جھولی چا کر”دعا مانگنا عام ہے۔جھولے لال سے بہت پہلے آدمی چراغ کے اسرار سے واقف تھا۔ زرتشتی،آتش پرست ہیں ۔فردوسی ، آگ کی دریافت کو ہوشنگ سے جوڑتا ہے۔بادشاہ شکار پہ تھا۔اس نے پہاڑ کے پتھروں کے درمیان ایک سانپ کھوجتے دیکھا اور اس کے سر پر پتھر مارا۔نشانہ چوک گیا اور پتھر ٹکرانے سے چنگاریاں نکلیں۔یہی چنگاریاں پھر شعلہ ہوئیں۔ ہندو روایت میں ہاون کی رسم، پوجا کا حصہ ہے۔ہاون سنسکرت کے ہو سے نکلا ہے اور ہو کا مطلب giving اور قربانی ہے۔صوفیوں کے تکیوں پر اللہ ہو کے ورد سے دل”چلتے”ہیں، قربان ہوتے ہیں۔ یونانی پرومیتھیس آگ کو آدمی تک لانے کی سزا بھگت رہا ہے۔کوہِ طور پر شعلے سے درشن ہے ،کلام ہے۔ کہ شعلے کی زبان ہوتی ہے ۔قرآنِ پاک میں چراغ ، حکمتِ بالغہ کی تفہیم کا استعارہ ہے:
اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ کَأَنَّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْْتُونِةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْْتُہَا یُضِیْء ُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّور عَلَی نُورٍ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( النور،٢٤: ٣٥)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، طاق میں جیسے چراغ۔۔۔۔۔ نور کے اوپر نور۔۔۔۔قرآن نے چراغ اور روشنی کو transcendental experiencing سے جوڑا ہے۔
جھولے لال بقائے باہمی کا قصہ ہے۔درگاہ میں رکھی تصویر میں اڈیرو لال ایک گھوڑے پر سوار ہیں اور پلہ مچھلی اور کنول کا پھول نیچے نظر آ رہا ہے۔ان کی تعلیم کے تین اصول انسانیت کے سیکولر اصول ہیں۔مظلوم ہندووں اور مسلمانوں کی مدد کرنا۔ دوسرے، فرقہ بازی کو ختم کرنا اور تیسرے، جل اور جیوتی کے ذریعے حقیقت ِمطلقہ کی پہچان۔ ہزار سال پہلے یہ humanismکا منشور تھا۔ یورپ سے پانچ سو سال پہلے سندھ وادی میں انسانیت پرستی کی تحریک پیدا ہوئی تھی، جسے کولونیل ازم نے مار دیا۔ہر سال چیت کا مہینہ شروع ہوتے ہی چلیہو صاحب منایا جاتا ہے۔اکتالیسویں دن بحرانڑو کی رسم ہوتی ہے۔ پنجڑے گائے جاتے ہیں۔پنجڑا ، پانچ سطری بھجن ہے۔پانچ کے عدد کا اسرار عجب ہے۔ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہیں۔ارسطو ہاتھ کو”آفاقی عضو”کہتا ہے۔حسینوں کی انگلیوں کے سرخپوش آگ کی پوجا کے در کھولتے ہیں!ہر انگلی قلم کی طرح روشن ہے۔سندھو میں پانچ دریا ضم ہوتے ہیں۔ پنجند ہے، پنجاب ہے۔پنج تن ہیں۔پنجڑا، پانچ سطری گیت، بحرانڑو کے پانچ چراغ اور پانچ ککے ہیں۔ حضرت فاطمہ ع کا مبارک ہاتھ ہے۔ سندھ وادی میں پنجہ اہم ہے۔ موہنجوداڑو کے لال اینٹ بنانے اور لگانے والے مزدوروں اور سندھ کے ہاریوں کے ہاتھوں سے تہذیب کے معجزے برپا ہوئے ہیں۔ہاری کا ہاتھ جس کی محنت سے حسیں کھیتوں کا جوبن پھٹا پڑتا ہے مگر ان میں سائیں اور سامراج کے کرم سے بھوک اگتی ہے۔اقبال، بندے کے ہاتھ کو کارساز کہتے ہے :
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
”بحرانہ”کی رسم میں تھالیوں میں آٹے اور دیسی گھی کے پانچ چراغ ہوتے ہیں۔ آٹے کے پیڑے، لونگ ملے میٹھے چاول، اگر بتیاں اور پھولوں کے نذرانے لے کر خلقت دریا پہ جاتی ہے ۔چھیج رقص کیا جاتا ہے۔ یہ رقص گجراتی ڈانڈیہ ڈانس کے قریب تر ہے۔ رسم کے اختتام پر دریا کے وسط میں تھالیاں دریا کی نذر کی جاتی ہیں۔یہ بحرانہ صاحب کا سوبھا یاترا (victory dance)ہے۔ دریا پنتھیوں سے بہت پہلے ملاح، موہانڑے اور میر بحر ، دریا بادشاہ کو نذرانے پیش کرتے تھے۔”جھولے لال ، بیڑے پار”کا نعرہ ملاحوں کا منتر ہے۔ مسلمان ملاح اور موہانڑے، خواجہ خضر، منگھو پیر، پیر سانولو اور حضرت الیاس علیہ السلام کو پکارتے ہیں۔عبداللہ شاہ غازی سمندر کے سیدی ہیں۔لال قلندر کے بارے میں ملاحوں کا عقیدہ ہے کہ دریا ان کو سلام کرنے آتا ہے، وہ ملاحوں کے patron saint ہیں ۔سندھ وادی کی تہذیب، ٹھوس نہیں مائع تہذیب ہے، بند نہیں porousہے اور فکر کے کئی دھارے، گونا گوں کلچر،مذاہب ، ہزار قصے اور قدیم روایتیں سندھو کے پانی کی طرح لہر در لہر چلتے ہیں۔فرائیڈی لاشعور میں مرکھ شاہ کی حسرتوں کے مزار ہیں تو ژونگ کے اجتماعی لاشعور کے کرشمے لال اینٹوں کی تہذیب، جھولے لال اور لال قلندر ہیں!!

About The Author