اس حقیقت سے بلاشبہ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پا کستان ائیر فورس کا شمار دنیا کی چند بہترین ائیر فورسز میں ہوتا ہے۔ ملکی دفاع میں پاکستان ائیر فورس نے ہمیشہ اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دہشت گردی ہو چاہے امدادی سرگرمیاں یا پھر دشمن کو بہترین سرپرائز دینا ہو پاکستان ائیر فورس ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ پاکستان ائیرفورس کے بہادر پائلٹس کی بہادری مشاقی اور وفاداری کی دنیا قائل ہے ۔ راشد منہاس ہو یا ایم ایم عالم ہو یا پھر حسن صدیقی ہر بار پاکستان فضائیہ نے قوم کی عزت کو سرخرو ہی کیا ہے۔
جب پاکستان نے اپنی تاریخ کے بدترین زلزلے کا سامنا کیا تھا
پاکستان ائیر فورس نے امدادی سرگرمیوں میں اپنا بہترین کردار ادا کیا تھا قوم کو یاد ہوگا اس وقت ہر طرف صرف تباہی کے مناظر تھے
تاہم ائیرفورس کے جوانوں نے نچلی پروازیں کرکے زلزلہ زدگان میں امداد تقسیم کیں جبکہ مریضوں اور عوام کو کشمیر سے ہسپتالوں اور محفوظ مقامات پر منتقل کیا ۔
پاک فضائیہ کا یہ کامیاب ریسکیو اور ریلیف آپریشن دس اکتوبر2005ء سے جنوری 2006ء تک مسلسل جاری رہا۔
اس میں سی ون تھرٹی‘ سی این235‘بی 707 اور وائے12 جہازوں نے حصہ لیا۔اس ریلیف اورریسکیوآپریشن میں کل 2442ٹن سامان کی منتقلی کی گئی اور قریباً3342 افراد کو ریسکیو کیا گیا تھا
سال کا بدترین زلزلہ: 2010
جب پاکستان نے ایک بار پھر سیلابی تباہ کاریوں کا سامنا کیا اس کڑے وقت میں بھی پاکستان ائیر فورس نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور سیلاب زدگان کو بروقت امداد پہنچائی تھی ۔
اب جبکہ کرونا کی وبا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے چین سے شروع ہونے والے اس عفریت کے خون آشام سائے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس مصیبت کی گھڑی میں بھی پاک فضائیہ کا ٹرانسپورٹ کا بیڑا کورونا وائرس کیخلاف جنگ کا ہر اول دستہ ہے۔اس مصیبت کے وقت امدادی طبی سامان کی نقل و حمل میں اہم ترین کردار ادا کررہا ہے۔
دوسری جانب اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی عوام کو پاک فضائیہ سے خصوصی لگاؤ ہے تاہم ایک ہاؤسنگ اسکیم کی وجہ سے پاک فضائیہ کو بہت ہی پریشانی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی ساکھ پر پہلی بار سوال اٹھے۔
نظر ڈالتے ہیں ٖفضائیہ ہاؤسنگ اسکیم اور اس سے جڑے چند ان حقائق پر جن پر بات ذرا کم ہی ہوئی ہے۔
فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کیا تھی؟
پاک فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم پراجیکٹ کراچی کا افتتاح فروری 2015 میں ہوا تھا۔ جس کے تحت 50 فیصد گھر ائیر فورس افسران یا ائیرمین اور دیگر 50 فیصد سویلین یعنی عام شہریوں کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اس پراجیکٹ کا آغاز دو کمپنیوں کے اشتراک سے ہوا جن میں پاکستان ائیر فورس (پی اے ایف) کا ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پراجیکٹس اور پارٹنرشپ کمپنی میکزم پراپرٹیز شامل تھے۔
میکزم پراپرٹیزاس پراجیکٹ میں 50 فیصد کی حصے دار تھی اور عام شہریوں کی تمام پراپرٹی کی ڈیلنگ ان کے ذمے تھی۔
فروری 2015 میں اس پراجیکٹ کی پہلی سائٹ کے لیے بولی کا اعلان کیا گیا جس کی لوکیشن کراچی میں واقع ناردن بائی پاس کے قریب ڈریم ورلڈ ریزارٹ سے متصل ہے۔
پہلے فیز میں لگژری اپارٹمنٹس کا اعلان کیا گیا جن کی مالیت 50 لاکھ کے قریب تھی۔
اسی پراجیکٹ کے دوسرے فیز کا اعلان فروری 2017 میں سائٹ 2 پر کیا گیا جس کی لوکیشن ناردن بائی پاس سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور اس سائٹ پر 65 لاکھ سے سوا کروڑ کی مالیت کے تین طرح کے لگژی ویلاز تعمیر کیے جانے تھے۔
فروری 2017 میں میکزم پراپرٹیز نے سندھ حکومت کے محکمے ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا
جس کا متن تھا کہ 26 دسمبر 2013 کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مختلف اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپنی زیر اخیتار زمین پر تعمیرات کرنے کا اعلان کیا اور تمام مالکان سے اپنے دستاویزات جمع کروانے کی گزارش کی۔
اسی اشتہار کی مد میں پی اے ایف اسٹیٹ پراجیکٹس نے فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کی تقریباً 400 ایکڑ اراضی کے لیے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو درخواست کی کہ اس پراپرٹی کو ملیر ماسٹر پلان کی زمین کے ساتھ تبدیل یا ایڈجسٹ کیا جائے۔
جس کے بعد 19 جولائی 2015 کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے لیے نئی زمین الاٹ کی گئی اور یہ شرط رکھی گئی کہ پچھلی زمین ایم ڈی اے کے حوالے کر دی جائے گی۔
پانچ اگست 2015 کو اس تبادلے کی تمام دستاویزات متعلقہ افسران کے حوالے بھی کر دی گئی تھی۔ میکزم کے مطابق اس تبادلے کی تمام قانونی شرائط مکمل ہونے کے بعد میکزم پراپرٹیز اور پی اے ایف اسٹیٹ پراجیکٹس کی جانب سے مختلف نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اشتہارات دیے گئے۔ اس دوران کافی بڑی تعداد میں لوگوں نے پلاٹ بک کروائے اور لاکھوں روپے کی ڈاؤن پیمنٹ جمع کروائیں۔
فروری 2017 میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ڈیڑھ سال قبل جاری کی گئی نئی زمین کی دستاویزات کو شرائط پوری نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا
تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) نے مارچ 2018 میں فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی (ایف ایچ ایس) اور سندھ کے بورڈ آف ریونیو اور لینڈ یوٹیلیٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ سندھ کے اراضی اور محصولات کے محکموں کے عہدیداروں پر ایف ایچ ایس انتظامیہ کو غیر قانونی طور پر زمین فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
گذشتہ سال نیب کی جانب سے نومبر 2019 میں ایک جاری کردہ پریس ریلیز میں فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے خلاف تازہ انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کی غلط بیانی اور مبینہ فراڈ کی وجہ سے تقریباً 6000 افراد متاثر ہوئے ہیں جنھوں نے ان زمینوں پر 13 ارب روپے کا سرمایہ لگایا ہوا ہے۔
ہاؤسنگ اسکیم کے بارے میں نیب تحقیقا ت اورپاک فضائیہ
فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے متاثرین کی تعداد 6 ہزار ہے جنہوں نے اسکیم میں تقریباً 13 ارب روپے لگائے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق اپنے خدشات کو لیکر نیب کے پاس پاک فضائیہ شکایت کنندہ کے طور پر خود گئی تھی جبکہ پاک فضائیہ نے نیب میں متاثرین کی رقم کی واپسی کے لیے درخواست جمع کروائی تھی اور تمام واجبات کی ادائیگی کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ جس کے بعد نیب نے پاک فضائیہ اور فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم متاثرین کی درخواست پر اس اسکیم کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا ۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے میکزِم پراپرٹیز سے وابستہ تنویر احمد اور بلال تنویر کو گرفتار کیا اور دوران حراست اس بات کا انکشاف ہوا کہ ملزمان کی جانب سے فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی کے نام پر عوام کو دھوکا دیا گیا
تاہم اب سندھ ہائی کورٹ نے فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی اسکینڈل میں گرفتار ملزمان تنویر احمد اور بلال تنویر کی مشروط ضمانت منظور کرلی جبکہ چھ ماہ میں متاثرین کی رقوم واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ اگر 6 ماہ میں متاثرین کو رقم واپس نہ کی گئی تو نیب دوبارہ انکوائری شروع کرسکتا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ دونوں ملزمان کو فوری رہا کیا جائے تاکہ متاثرین کی رقم واپسی کے معاہدے پر عمل ہوسکے۔
فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے بارے میں تحقیقات اور فضائیہ کا اصولی موقف
عام طور یہ سمجھا گیا یا غلط انداز میں پیش کیا گیا کہ فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کو پاکستان ایئرفورس نےغیر قانونی طور پر2015 میں میکزم پراپرٹیز کے ساتھ شراکت داری کے تحت ملیر میں واقع خلاف قانون ایڈجسٹ شدہ زمین پر شروع کیا تھا۔
تاہم تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی تھی اور پاکستان ایئرفورس کے بے داغ کردار اور ساکھ کو خراب کرنے کی بدنیتی پر مبنی ایک کوشش تھی۔
یہاں کچھ حقائق پیش خدمت ہیں جنہیں ہم نے سخت چھان بین کے بعد فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے متعلق سامنے رکھا ہے ۔ نظر ڈالتے ان حقائق پر جنہیں غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے:
ایئر ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کے ڈائریکٹوریٹس میں سے ایک ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پروجیکٹس ہے جس کا واحد مقصد غیر منافع بخش بنیادوں پر پی اے ایف کے اہلکاروں (حاضر سروس/ریٹائرڈ) کی فلاح و بہبود کے ساتھ جنگی ہیروز، شہداء کے خاندانوں، بیواؤں اور معذور افراد کی بحالی ہے۔ یہ ڈائریکٹوریٹ منافع یا کاروبار کے لیے اسکیمیں نہیں لاتا اور صرف فلاح و بہبود کے مقصد سے فرائض انجام دیتا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ نے مذکورہ مینڈیٹ کے تحت فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے پروجیکٹ پر جوائنٹ وینچر پارٹنر میکزم کے ساتھ شراکت داری کی اور میکزم کی ذمہ داری تھی کہ وہ پروجیکٹ کے لیے زمین فراہم/حاصل کرے۔
معاہدے کے تحت ڈائریکٹوریٹ کو کسی منافع کے بغیر فلاحی بنیادوں پر حاضر سروس اہلکاروں کو یونٹوں کے اجرا کے علاوہ ان کی عوام الناس سے خرید و فروخت کی اجازت نہیں تھی جبکہ سول کوٹہ کے ممبران سے متعلق معاملات کو دیکھنا ایم/ ایس میکزم (جے وی پارٹنر) کے ذمہ تھا۔
بحریہ ٹاؤن کیس کے تناظر میں ڈائریکٹوریٹ کی توجہ FHSK کی زمینوں میں سرکاری زمین کی شمولیت کی جانب مبذول ہوئی۔ سال 2019 میں ڈائریکٹوریٹ کی باضابطہ درخواست پر بعض حکومتی محکموں کی جانب سے کی گئی اس پروجیکٹ کی زمینوں کی توثیق میں یہ نشاندہی ہوئی تھی کہ پروجیکٹ کی مجموعی370 ایکڑ زمین میں سے 194 ایکڑ سرکاری اور 55 ایکڑ نجی زمین شامل تھی، جس کے بعد یہ منصوبہ روک دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ نیب میں عوام الناس کے ساتھ ڈائریکٹوریٹ بھی اپریل 2019 سے شکایت کنندہ ہے اور رقوم کی فوری اور باسہولت واپسی کے لیے ڈائریکٹوریٹ نے، اس کے باوجود کہ معاہدے کے تحت عوام الناس کو رقوم کی واپسی میکزم کی ذمہ داری تھی، بلاتاخیر جنوری 2020 میں نیب میں اس پروجیکٹ کی زمینوں، اثاثوں اور فنڈز کی حوالگی کے لیے حلف نامہ جمع کروایا تا کہ عوام الناس کو فوری طور پر رقوم واپس کی جا سکیں۔
میکزم پراپرٹیز کے دو اعلیٰ منیجرز اور مشتبہ افراد میں تنویر احمد اور بلال تنویر شامل ہیں، جو 2015ء میں پاکستان ایئرفورس کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبے کے تحت شروع کی گئی فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے نام پر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے الزام میں زیر حراست رہے ۔ سندھ ہائی کورٹ نے گرفتار ملزمان تنویر احمد اور بلال تنویر کی مشروط ضمانت منظور کرلی ہے جبکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ ملزمان کو متاثرین کی رقم چھ ماہ میں واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس سے قبل استغاثہ کے مطابق ان دونوں مشتبہ افراد نے پیسہ کمانے کے ارادے سے پی اے ایف کے نام پر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے پروجیکٹ کے مقام کو خفیہ رکھا۔ استغاثہ کے مطابق انہوں نے اپارٹمنٹس، بنگلوں، سرچارجز اور پروسیسنگ فیس کے نام پر عوام الناس سے تقریباً 18 ارب روپے دھوکہ دہی کے ذریعے حاصل کیے۔ ان مشتبہ افراد نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پی اے ایف کو اپنی ہاؤسنگ اسکیم کے لیے K-IV پروجیکٹ میں شامل زمین قبول کرنے کی چال بھی چلی۔ مزید یہ کہ اس زمین کا تبادلہ ایک دوسری حکومتی زمین سے کیا گیا، جس کا معائنہ کیا جانا ضروری تھا کیونکہ دونوں بلڈرز نے ابھی اپنی لوکیشن ظاہر نہیں کی تھی۔
اپنی مبینہ دھوکہ دہی پر مبنی اسکیم کی وجہ سے ان مشتبہ افراد نے لے آوٹ پلان چھ مرتبہ تبدیل کیا اور بالآخر 8,043 یونٹس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں پی اے ایف کی ملکیت 4,042 یونٹس اور میکزم پراپرٹیز کو 4,041 یونٹس پر حق حاصل تھا۔ نیب کی ایک پروگریس رپورٹ کے مطابق پی اے ایف نے اپنے کوٹہ میں سے اپنے ملازمین کو صرف 1,542 یونٹس فروخت کیے تھے۔ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ طے شدہ تناسب کے برعکس مشتبہ افراد نے تقریباً 5,750 یونٹس زیادہ ہیں۔1,700
پاک فضائیہ کا اصولی موقف
اس سلسلے میں جب ہم پاک فضائیہ کے ترجمان سے ان کے موقف کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر کوئی بھی موقف دینا منا سب نہیں تاہم
پاک فضائیہ ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پراجیکٹس فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کا کہنا ہے کہ وہ
کراچی کے متاثرین کو رقوم کی فوری واپسی کے سلسلے میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے ۔
جبکہ اس سارے عمل کے دوران ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پراجیکٹس نے اس اسکیم کے متاثرہ افراد کے مفادات کے لئے خاطر خواہ کوشش کی
اور وہ متاثرین کی رقوم کی مکمل واپسی تک انکا ساتھ دے گا
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس اسکینڈل کی خبر نے نہ صرف پاک فضائیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ ان بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی نفسیاتی اور مالی نقصان پہنچایا جو پاکستان میں اپنے گھر کے خواہشمند تھے تاہم ان کے لیے بہرحال ایک اچھی خبر ہے کہ معزز عدلیہ کے حکم کے مطابق ان کی جائز رقوم ان کو واپس کردی جائینگی جو کہ دوسری جعلی ہاؤسنگ اسکیم کے متاثرین کے لیے تاحال ممکن نہیں ہوسکی اور اس کی ایک مثال ڈی ایچ اے ویلی ہے۔ میکزم گروپ کی جانب سے کی گئی بدنیتی اور پاکستان کے سب سے بہترین دفاعی ادارے کا نام بدنام کرنے کی اس سازش میں یقینی طور پر پاکستان کے دشمن بھی شامل ہونگے اور اس معاملے پر بہت مشکل سے سہی لیکن پاک فضائیہ اپنے نام پر لگا یہ دھبہ صاف کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ لہذا امید کی جاسکتی ہے کہ اب اس اسکیم سے متعلق مفروضوں پر مزید بحث نہیں کی جائیگی ۔ ساتھ ہی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ائیر فورس نے ہمیشہ پاکستان کا سر فخر سے اونچا ہی رکھا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر