ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص جو کہ سرکاری ملازم تھا نے سائیکل خریدی۔جب سائیکل کو دیکھا تو اُس کے پیچھے کیرئیر نہیں لگا ہوا تھا۔اُس شخص نے اپنے بیٹے کو سائیکل دے کر دوکاندار کے پاس بھیجا کہ کیرئیر لگوا کر آئے ۔جب بیٹا واپس آیا تو سائیکل پر کیرئیر لگا ہوا تھا مگر سائیکل کا سٹینڈ نہیں تھا۔اس بار وہ خود سائیکل لے کر دوکاندار کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا مسلئہ ہے کہ پہلے کیرئیر نہیں تھا اور اب سٹینڈ نہیں ہے۔اس پر دوکاندار نے جواب دیا کہ سرکار کی نوکری میں کیرئیر یا سٹینڈ میں سے صرف ایک چیز مل سکتی ہے اگر سٹینڈ لو گے تو کیرئیر ختم اور اگر کیرئیر چاہیے تو سٹینڈ نہیں لینا ہوگا۔
کم وبیش یہی صورتحال پاکستان کی سیاست کی بھی ہے۔وطن عزیز کی اگر سات دہائیوں پر مشتمل سیاسی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیں تو مندرجہ بالا واقعہ کے ساتھ حیرت انگیز مماثلت سامنے آتی ہے۔جن سیاست دانوں نے کسی بھی ایشو پر سٹینڈ لیا تو ان کا کیرئیرریت کی دیوار ثابت ہوااور جو کیرئیر کی لمبی اننگز کھیلے انہوں نے کبھی بھی سٹینڈ لینے کی جرات ہی نہیں کی۔قومی سطح کے معاملات پر سٹینڈ لے کر کیرئیر بنانے کا رواج ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔اب تو سیاست میں ڈیل ہوتی ہیں۔طاقت کے جتنے مراکز ہوتے ہیں ان سے بالواسطہ یا بالا واسطہ معاملات طے ہوتے ہیں۔کیرئیر بنانے کے لیے ہم خیال دوست ممالک کی یاترا انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔تاہم ایک نقطہ زہن نشین ہونا چاہیے کہ جب حصول اقتدار کے لیے عوام سے رابطہ کی بجائے دوست ممالک کی یاترا کی جائے گی تو بعداز حصول اقتدار کسی بھی قومی سطح کے ایشو پر سٹینڈ نہیں لیا جا سکے گا بلکہ طے شدہ اصول وضوابط کے ساتھ ہی ملکی معاملات کو دیکھا اور سنبھالا جائے گا۔
پاکستانی سیاست دانوں نے بھی مختلف ادوار میں حصول اقتدار کی خاطر امریکہ بہادر یا پھر سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے بے شمار دورے کیے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ خود کو قابل قبول بنانے کے لیے برطانیہ ،چین جیسے ممالک کے بھی دورے کیئے گئے اور یہ فائدہ مند بھی رہے۔سیاسی جماعتوں کی قیادتیں نا صرف اقتدار تک پہنچیں بلکہ اگر کبھی غلطی سے ان قیادتوں نے کسی ایشو پر سٹینڈ لینے کی غلطی کربھی لی اور من چاہے فیصلے کرنے کی کوشش یا پھر خود کو سیاسی طورپر ناگزیر سمجھے کی غلط فہمی پال لی تو نا صرف رائندہ درگاہ قرار پائے بلکہ سٹینڈ بھی نا کرسکے اور نا صرف کیرئیر پڑے بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ایک خاص متعین حد سے زیادہ اقتدار کی خواہش ، طاقت کا حصول،فیصلہ سازی میں کلی اختیار صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اقتدار عوامی طاقت سے حاصل کیا گیا ہو۔باہمی مذاکرات اور مشترکہ دوستوں کی ضمانتوں سے حاصل ہونے والے اقتدار میں صرف اور صرف شیروانی ہی نصیب میں آتی ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کے سیاسی ،سماجی اور معاشی حالات کم وبیش ایک سے ہیں اور ان ممالک کی سیاسی قیادتوں کی صورتحال بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔اگر ہم اپنے خطے کے ممالک کے کی طرف غور کریں تو بے ہنگم آبادی ، بنیادی وسائل سے محروم انسانوں کا جم غفیر،بے روزگاری،غربت،امن وامان کی ابتر صورتحال جیسے مسائل ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں اور اسی طرح ان ممالک کی سیاسی قیادتوں کے حالات بھی ناموں کے فرق کے علاوہ ایک جیسے ہیں۔اقتدار کی خواہش میں سیاسی مہم جوئی کے دوران عوام سے جھوٹ بولنا ،جھوٹے وعدے کرنا، سنہرے خواب دکھانا ،مالی و اخلاقی طور پر کرپٹ ہونا،امیدوں کے مینار کھڑے کرنا اور جادوئی چراغ سے تمام مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرانا عام سی بات ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تقاریر کے بعد ان مسائل زدہ انسانوں کے ہجوم سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی صدائیں بلند ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی فلم ہے جو کرداروں کو بدل بدل کے ایک مدت سے چل رہی ہے۔
اب یہ عوام کے سوچنے کی باری ہے کہ اگر سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے تو پھران مسائل کا حل کیا ہے۔خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کیسے میسر ہوں گی ان کی بہتر تعلیم اور صحت کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔غربت کے خاتمے اور باعزت روزگار کا حصول کس طرح ممکن ہوگا۔کیا یہ سب ممکن بھی ہے یا ناممکن ہے۔وقت آ گیا ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ گزشتہ ستر سالوں سے چلنے والے حالات کب اور کیسے ٹھیک ہوں گے۔یا پھر ان بدترین حالات کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جائے اور زندگی جیسی گژر رہی ہے کو غنیمت سمجھ کر محض گذارا جائے۔
سب کچھ ممکن ہے اور خواہش سے زیادہ بہتری ممکن ہے۔بدترین مسائل میں گھرے کروڑوں انسانوں کی زندگی بدلنا کون سا مشکل کام ہے۔وقت لگے گا مگر یہ ہوجائے گا مگر اس کے لیے اپنی ذات سے بلند ہوکر مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے ہوں گے۔زاتی کیرئیر کی بجائے استحصالی نظام کے خلاف سٹینڈ لینا ہوگا۔تمام تر معاشرتی اور سماجی برائیوں کے خلاف سٹینڈ لینا ہوگا۔ہر اس چیز سے لڑنا ہوگا جو اجتماعی فائدہ نا پہنچا سکے۔بہترین قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا ایک قوم بننا ہوگا۔وقتی مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر دور رس مثبت نتائج کی حامل پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔اقتدار میں شیئر نہیں بلکہ کلی اقتدار حاصل کرنا ہوگا۔اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔نیا سیاسی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔نئے عمرانی معاہدئے کی تشکیل کے لے تگ و دو کرنی ہوگی۔قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔تاریخ گواہ ہے کہ دولت و طاقت کا ارتکاز تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی مسائل کو ختم کرئے گی ۔سب کچھ ہوجائے گا مگر اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ اپنی زات سے جڑے ہرفائدے کی نفی کرنی ہوگی اپنے کیرئیر کو محفوظ کرنے کی بجائے اپنے معاشی ،سماجی ، سیاسی اور معاشرتی حالات کے خلاف سٹینڈ لینا ہوگا۔کیونکہ یہ تو طے ہے کہ کیرئیر بناو گے تو سٹینڈ نہیں لے سکو گے اور اگر سٹینڈ لو گے کیرئیر نہیں بن سکے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر