نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نامہ بروں کا طنز ۔۔۔ حیدرجاوید سید

کسی نے بھی انسانیت کے اجتماعی مفاد اور لمحہ موجودکی ضرورتوں کو مقدم نہیں سمجھا۔سبھی اپنی اپنی دکانیں بند ہونے پر برہم تھے۔

آگے بڑھنے سے قبل پشاور سے امین اللہ خان کا پیغام پڑھ لیجئے۔وہ کہتے ہیں۔

”بھئی آپ کے سو سال صحافت میں رہنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور حرف آخر میں الزام عوام پر، مورد الزام پاکستانی سسٹم اورادارے کیوں نہیں ٹھہرائے ۔جنہوں نے لاک ڈاون کے دوران آٹا،چینی،ادویات اور دوسرے تمام مافیا کے خلاف اقدامات نہیں کیئے بالآخر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام کیسے زندہ رہے۔جبکہ مافیاز سب کچھ چھپا کر مہنگائی کا خوف پھیلائیں۔ذراتم تو حق اور سچ کہو ذمہ دار پاکستانی سسٹم ہے اور اسی کے خلاف شعور پھیلاو”(کاف شین کی درستگی بنا پیغام کالم میں شامل کردیا )

میرے اس عقل مند قاری نے خود کو ایک پشاوری دوست لکھا ۔

لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز والا کالم غور سے نہیں پڑھا بس وفاقی وزیر مراد سعید کی طرح جذباتی تقریرکو پیغام کی صورت لکھ دیا۔

ایک ایسے سماج میں جہاں نصف لوگ کورونا کو محض ایک فسانہ سمجھتے ہوں اور40فیصد اسے ایک عالمی سازش،مشکل سے دس فیصد لوگ اس حوالے سے سنجیدہ ہوں تو ذمہ دار کون ہے۔

سسٹم یا سماج کے مختلف طبقات؟۔

عوام کہلانے والی رعایا کا مقدر یہ ہے کہ اس کی نصف کے قریب تعداد اب بھی حفظان صحت کے اصولوں کی بجائے نوٹنکی بازوں کے ٹوٹکوں کو زندگی کا پیغام سمجھتی ہے

مثال کے طور پر حکومت کے متعلقین کیا گلیوں اور بازاروں میں نکل کر ماسک کے بغیر منہ اُٹھائے گھومنے والے شخص کے آگے ہاتھ جوڑ یں یا اس کے پائوں پکڑیں کہ ماسک پہن لو۔

یہ شہری اور اس طرح کی باقی مخلوق خود عصری شعور کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتی؟

فقط پچھلے کالم میں ہی نہیں بلکہ پچھلے3ماہ سے مسلسل ان سطور میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں،جناب وزیراعظم کے مخمصے اور این ڈی ایم اے کے کردار پر سوال اٹھاتا آرہا ہوں۔

یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس ملک کے مذہبی اکابرین نے قدم قدم پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔

کسی نے بھی انسانیت کے اجتماعی مفاد اور لمحہ موجودکی ضرورتوں کو مقدم نہیں سمجھا۔سبھی اپنی اپنی دکانیں بند ہونے پر برہم تھے۔

حکومت پہلے ان کے سامنے جھکی پھر تاجروں کے سامنے جھک گئی۔

عجیب بات ہے جب ابھی صرف40سے50افراد ہی اس وبا سے جاں بحق ہوئے تھے تو ہمارے یہاں تین سے پانچ دن تک روزانہ شب10بجے مساجد اور گھروں کی چھتوں سے اذانیں دی جارہی تھیں اور جب500کے قریب لوگ وفات پاچکے تھے اور10ہزار سے زیادہ مریض تو ہمارے یہاں رمضان بازار لگانے کے مطالبات ہورہے تھے۔

عید کے لئے بازار کھولنے پر زوردیا جارہا تھا۔ آج 9جون ہے۔ایک لاکھ ایک ہزار افراد کورونا سے متاثر ہوچکے

(یاد رہے یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں)2085 افراد جاں بحق۔لیکن ذرا گلیوں سڑکوں اور بازاروں میں نکل کر دیکھ لیجئے کیا ساری ذمہ داری حکومت اور سسٹم کی ہے۔

شہریوں کی خود سے کوئی ذمہ داری نہیں؟۔

سنجیدگی کا مظاہرہ جتنا حکومت کا فرض تھا اتنا ہی عوام کا بھی۔مگر عوام کا حال سب کے سامنے ہے ۔

حکومت پر تنقید بہت آسان ہے ہم روز کرتے ہیں موجودہ حالات میں شہریوں کے اس بڑے طبقے کو آئینہ دکھانے کی ضرورت تھی اور ہے جس کا خیال ہے کہ کورونا ایک سازش ہے۔لندن،امریکہ یا اسرائیل کی کسی فیکٹری میں تیار ہوا وائرس۔

اسے مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی سازش کہنے والے ہمارے چار اور دندناتے پھرتے ہیں۔

مہنگائی کے حوالے بھی کالم نگار نے حکومتی کمزوریوں کے ساتھ منافع خوروں کی چالبازیوں بارے ان کالموں میں تواتر کے ساتھ عرض کیا۔

مکرر عرض کرتا ہوں کیا حکومت اور فقط حکومت کو سارے کام کرنے تھے اور ہیں؟

ہمارا آپ کا کوئی فرض نہیں۔حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کسے کرنا ہے؟۔

عین ممکن ہے اگلے سو سال بھی صحافت میں رہنے کے باوجود اس قلم مزدور کو عقل نہ آئے۔اس کے پیمانے ہر طبقے کے لئے الگ ہیں۔جناب امین اللہ خان کا بھی اپنا ہی معیار ہے

قلم مزدور دادوتحسین کے لئے معروضات پیش کرتا ہے نہ محض حکومت وقت کی مخالفت میں سامنے دیوار پر لکھی حقیقتیں زیادہ اہم ہیں۔

ذرا ان کی طرف توجہ دیجئے۔

غربت بیروزگاری،خط غربت سے نیچے آباد لوگوں کی تعداد،مہنگائی اور دوسرے مسائل کورونا سے قبل بھی تھے یااب قدرے سنگین ہوئے۔

حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہی۔چلیں ہم ملکر سسٹم پر پتھراو کرلیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کسی بھی طرح کے ہنگامی حالات یا وبا کے موسم میں جو انفرادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ کس نے سر انجام دینی ہیں؟۔

پچھلے سال کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک میں کچھ نوجوانوں نے ملک کے مختلف حصوں میں مہنگائی کے خلاف عملی احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے صرف تین دن کے لئے اشیائے خوردونوش مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی کتنا عمل ہوا؟۔

عام شہری کی غیر سنجیدگی کی ایک دوسات نہیں سینکڑوں مثالیں عرض کی جاسکتی ہیں۔ لیکن فائدہ

بلاشبہ موجودہ حالات میں حکومت کو جو اقدامات اٹھانے چاہیئے تھے ان میں سے مشکل سے دس پندرہ فیصد ہی اٹھائے گئے حکومت کی غلطیاں اپنی جگہ ہیں لیکن یہ عالمی سازش۔کورونا کچھ نہیں۔بس باتیں ہیں۔بل گیٹس3500ڈالر میں ایک لاش خریدرہا ہے۔حکومت کو عالمی ادارہ صحت ایک مرنے والے کے5ہزارڈالر دیتا ہے اس لئے لوگوں کو مارا جارہا ہے۔

یہ اور اس طرح کی بیہودہ باتوں کو پر کس نے لگائے؟۔

یہ تحریر نو یس تحریک انصاف کی حکومت کا ناقد ہے مگر یہ انصاف نہیں ہوگا کہ ہر بات کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر جان چھڑالی جائے۔

چینی، آٹا، ادویات اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا فیض پانے والوں کے بارے میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا چلا آرہا ہوں۔

یہ بتلایئے کہ بازاروں عبادتگاہوں،دفاتر اور پبلک مقامات پر اپنے اپنے حصے کے فرض کی ادائیگی سے منہ موڑنے اور وبا سے انکار کا مشورہ بھی حکومت نے دیا تھا؟۔

About The Author