نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اینیمل فارم ہاٶس ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ایک سیاسی کارکن اور تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کے ناطے مجھے پنڈی کے فیصلوں سے نفرت اور تعصب کی بد بو آتی ہے ،

پسند کی حکومت، مرضی کا نظام مرضی کا احتساب صورتحال ایسی ہو گٸی ہے، جیسے ہمارا ملک انگریزی ناول ” دی اینیمل فارم ہاٶس” کی طرح دکھاٸی دینے لگا ہے۔

بھول گیا ہوں کہ شاعر کون ہے ؟

شاید فیض صاحب، حبیب جالب یا خالد علیگ مگر شعر یاد ہے،

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں؟

گزشتہ سال جب نیب نے صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کیلٸے زرداری ہاٶس پر دھاوا بولا تھا، تو صدر زرداری اپنے پاٶں سے چل کر گاڑی تک آٸے تھے، مگر جب نیب کی تحویل سے ضمانت حاصل کی تو ویل چیٸر پر بیٹھ کر واپس اپنے گھر روانہ ہوٸے، میں یہ نہیں کہتا کہ جیل میں ان پر تشدد ہوا مگر جیل حکام نے نیب کی طرف سے سخت منع کے احکامات پر عمل کرتے ہوٸے عدالت کے احکامات جو طبی سہولیات کے حوالے سے تھے کو ماننے سے انکار کیا، جس کے مضر اثرات صدر زرداری کی صحت پر پڑے ، اہل سندھ کے نیب کے کردار اور تحفضات حقیقت پر مبنی ہیں کہ انصاف نے مقدمے کا ٹراٸل پنڈی

میں کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟

ایک سیاسی کارکن اور تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کے ناطے مجھے پنڈی کے فیصلوں سے نفرت اور تعصب کی بد بو آتی ہے ،

صدر آصف علی زرداری کی صحت ابھی پوری طرح سنبھلی نہیں ہے اوپر سے کورونا وبا سے دنیا پریشان ہے ، عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او نے کورونا وبا کے حوالے حکومت پاکستان کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے ان حالات میں کیسے ممکن ہے ڈاکٹروں کی سخت منع کے باوجود صدر آصف علی زرداری احتساب عدالت میں پیش ہوں۔

جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو مجھے عربی ، فارسی اور اردو کے ساتھ تاریخ پر عبور رکھنے والے صحافی سلطان صابر یاد آتے ہیں کا کہنا تھا کہ ‘جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعے جب حسین شہید سہروردی کو سیاست سے بیدخل کیا تو میں کراچی میں ان کے گھر پہنچا مجھے دیکھ کر سہروردی صاحب نے کہا بڑے بھاٸی نے ہمیں ساتھ رکھنے سے انکار کردیا ہے’۔ اپنی کرسی کے نیچے کالین پر بھیٹے شیخ مجیب کی طرف اشاره کرتے ہوٸے کہا اب یہ جو بات کریگا اس کیلیٸے آزاد ہے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا تاریخ میں عیاں ہے دی اینیمل فارم ہاٶس کے عیں مطابق مرضی کی حکومت ، مرضی کا نظام اور مرضی کا احتساب بے لباس ہو گیا ہے، ریاست کے اندر طبقاتی امتیاز کا سوال پرواں چھڑ چکا ہے، عام شھری اور عسکری رہن سہن اور مراعات ایک خوفناک آتش فشان کی صورت اختیار چکی ہے، ایسے میں احستاب کے معیار ایک ایسی خلیج پیدا کر رہے ہیں جس نے ریاست کو آتش فشان کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔

About The Author