امریکہ میں ٹرمپ کے نمودارہونے سے قبل کئی برسوں تک نام نہاد Tea Partyکا بہت ذکر رہا۔ اس نام کی تاریخی وجوہات بیان کرنا شروع ہوگیا تو آج کے موضوع پر توجہ نہیں دے پائوں گا۔فی الوقت محض یہ یاددلانا کافی ہوگا کہ ایک خودمختار ملک بن جانے سے قبل امریکہ کے مشرقی ساحل پر آبادکئی شہر اور علاقے قیام پاکستان سے قبل والے انڈیا کی طرح برطانیہ کی نوآبادی ہوا کرتے تھے۔وہاں ایک شہر بوسٹن بھی ہے۔وہاں کی بندرگاہ میں چائے کی بوریوں سے بھرا ایک برطانوی بحری جہاز لنگرانداز ہواتو ’’حریت پسندوں‘‘ کی ایک ٹولی نے اس میں گھس کر چائے کی بوریوں کو سمندر برد کردیا۔
اس ’’باغیانیہ‘‘ اقدام کے ذریعے برطانیہ کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ امریکی اس سے آزاد ہوناچاہتے ہیں۔اس کے کارخانوں میں بنی مصنوعات کو خریدنے کے لئے تیار نہیں۔جو اشیائے صرف اس کے تاجر انڈیا اور چین سے سستے داموں خرید کر امریکہ کی منڈی میں ڈالتے ہیں ان سے ناقابل برداشت منافع ہی نہیں کمایا جاتا۔ ’’قابض انتظامیہ‘‘بلکہ ان سے گردن توڑ محصولات بھی جمع کرتی ہے۔
دورِ حاضر میں نمودار ہوئی Tea Partyدرحقیقت گلوبلائزیشن کے خلاف نفرت کا اظہار تھی۔اس سے تعلق رکھنے والے امریکہ کی ان Rust Statesکی نمائندگی کرتے تھے جہاں فیکٹریاں بند ہوجانے کے باعث زنگ آلودہوچکی تھیں۔ان فیکٹریوں کے بند ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکی صنعت کاروں نے اپنے ملک میں کارخانے لگانے کے بجائے سستی اُجرت اور زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس میں چین جیسے ممالک میں سرمایہ کاری شروع کردی تھی۔اس کی وجہ سے امریکہ میں سرمایہ کاری کا عمل رک گیا۔بے روزگاری شدت سے پھیلنا شروع ہوگئی۔
Tea Partyوالوں کا اصل دُکھ یہ بھی تھا کہ واشنگٹن اور نیویارک جیسے شہروں میں موجود ’’اشرافیہ‘‘ کوان کے غموں کا ادراک نہیں۔ وہاں کے خوشحال طبقات کے بچے مہنگی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بینکنگ اور کمپیوٹر جیسے شعبوں میں بھاری بھر کم تنخواہیں اورمراعات حاصل کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔وہ اپنے ملک کی فکر میں مبتلا ہونے کے بجائے دُنیا کو ایک ’’گائوں‘‘ تصور کرتے ہوئے ’’انسان دوستی‘‘ وغیرہ کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔دیگر ممالک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا احترام متعارف کروانا چاہتے ہیں۔عورتوں کو برابری کے حقوق دلوانے کو مرے جارہے ہیں۔
Tea Partyکا غصہ شدید تر ہوتا گیا کیونکہ اس کے لوگوں کا اصرار تھا کہ ان شہروں پر مسلط اشرافیہ نے سیاستدانوں اور میڈیا کو بھی خریدلیا ہے۔واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز جیسے اخباروں میں امریکہ کے عام آدمی کی مشکلات بیان نہیں ہوتیں۔CNNافریقہ میں قحط سالی پر دہائی مچاتا ہے مگر یہ جاننے کا تردد ہی نہیں کرتا کہ امریکہ کے کسانو ں پر کیا بیت رہی ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے فیس بک اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم نمودار ہوئے تو انہیں Tea Partyوالوں نے اپنے دلوں میں کئی برسوں سے اُبلتے غصے کے اظہار کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔اس غصے کو بالآخر ٹرمپ نے کمال مہارت سے ’’اپنے دل کی بات‘‘ بنالیا۔ٹویٹر اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ’’اشرافیہ‘‘ کی مسلسل لعن طعن کرتے ہوئے بالآخر امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا۔امریکہ کو ایک بار پھر ’’عظیم ‘‘ بنانا(MAGAیعنی Make America Great Again)اس کا نعرہ ہے۔
Tea Partyاور اس سے وابستہ غصے کی یاد مجھے پیر کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھتے ہوئے بہت شدت سے محسوس ہوئی۔تحریک انصاف کی عقبی نشستوں سے پنجاب کے ’’تھل‘‘ کہلاتے علاقوں سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی توجہ دلائو نوٹس کے ذریعے اپنے رقبوں میں ٹڈی دل کی وجہ سے آئی تباہی کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی یہ طے ہوگیا تھا کہ پیر کی نشست فقط ٹڈی دل کے حملے پر توجہ مرکوز رکھے گی۔جنوبی پنجاب کے مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ریاض پیرزادہ صاحب اس موضوع کو بہت سنجیدگی سے بیان کررہے تھے۔افضل ڈھاڈا اور ثناء اللہ مستی خیل کا مگر اصرار رہا کہ پہلے ان کا درد سنا جائے۔پیرزادہ صاحب کی تقریر کے فوری بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر انہیں ’’توجہ دلائونوٹس‘‘ پر تقاریر کا موقعہ دینے کو مجبور ہوگئے۔ ان کی تقاریر ختم ہوئیں تو ایوان میں سیاسی جماعتوں کے مابین تفریق ختم ہوتی نظر آئی۔اس کی جگہ ایک اور تقسیم نمودار ہوگئی۔ یہ تقسیم ’’شہری‘‘ اور دیہی‘‘ کے مابین تھی۔
ہمارے قصبوں اور دیہات میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دس فی صد بھی ہمارے روایتی میڈیا میں بیان نہیں ہورہا۔ہم کالم لکھتے یا اپنا ٹی وی شو تیار کرتے وقت بنیادی طورپر اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں کو کیا پسند آئے گا۔ان کے چسکہ طلب دلوں کی تسکین ہمیں درکار ہوتی ہے۔ Likesاور Ratingsکے غلام ہوئے ہمارے اذہان ان موضوعات کی جانب توجہ ہی نہیں دیتے جو ہمارے شہروں سے دورقصبات ودیہات میں بسے لوگوں کی بے پناہ اکثریت کے دل ودماغ کو روزمرہّ کی بنیاد پر پریشان کئے جارہے ہیں۔
ٹی وی سکرینوں پر تکرار سے کہانی یہ دہرائی جارہی ہے کہ ’’کپتان‘‘ ڈٹ گیا ہے۔’’شوگرمافیا‘‘ کو معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف برپا جنگ کی وجہ سے عمران خان صاحب کو اپنے اقتدار کی قربانی دینا پڑی تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔میں نے اپنی جوانی کے کئی برس ’’سوشلزم‘‘ آوے ای آوے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے ضائع کئے ہیں۔’’شوگرمافیا‘‘ کے خلاف ’’بے رحم احتساب‘‘ کے دعوے سنتاہوں تو یقین مانیں دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔نہایت خلوص سے ’’تمہارے منہ میں گھی شکر‘‘ کی دُعامانگنے کے لئے ہاتھ اٹھالیتا ہوں۔
’’شوگرمافیا‘‘ مگر اب ’’بے نقاب‘‘ ہوگیا ہے۔اس کے سرغنے جلد ہی احتساب بیورو یا ایف آئی اے والوں کی حراست میں زمینوں پر بیٹھے اپنی ’’لوٹ مار‘‘ کا حساب دے رہے ہوں گے۔مہنگے ترین وکیلوں کے لئے بھی ان کے لئے ضمانتوں کا حصول آسان نہیں ہوگا۔
احتساب کاعمل یقینا شروع ہوچکا ہے۔دریں اثناء مگر ڈیرہ اسماعیل خان سے بھکر ،لیہ اور خوشاب تک پھیلا ایک وسیع وعریض رقبہ بھی ہے جسے ہم صحرائی ہونے کے باعث ’’تھل‘‘ کہتے ہیں۔ اس علاقے میں رقبے کے اعتبار سے پنجاب کی سب سے بڑی ایک تحصیل منکیرہ بھی ہے۔ ان علاقوں میں پانی واقعتا ’’آب حیات‘ ‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ربّ کریم مگر اپنی مخلوق کے لئے رزق کے ذرائع بھی کسی نہ کسی صورت فراہم کرتا رہتا ہے۔بھکر مثال کے طورپر چنے کی کاشت اورپیداوار کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس برس مگر اس فصل کو بے موسمی بارشوں اور ژالہ باری نے تباہ وبرباد کردیا۔ رہی سہی کسر گزشتہ چند ہفتے قبل ہوئے ٹڈی دل کی یلغار نے پوری کردی۔
تھل سے جڑے کاشت کار ہر حوالے سے تقریباََ رُل گئے ہیں۔حکومت کی جانب سے مگر ان کی کوئی دلجوئی نہیں ہوئی۔ فصلوں کی ہمارے ہاں انشورنس کاکوئی نظام نہیں۔حکومتیں تباہ ہوئی فصلوں کا خمیازہ اپنے سرلینے کو تیار نہیں ہوتیں۔زرعی بینک والوں نے مگر جو قرضہ دیا ہوا ہے اس کی وصولی میں نرمی بھی نہیں دکھائی جاتی۔ اس قرض کے سود کی قسطیں ادا کرنے میں تاخیر ہوجائے تو کاشت کار کی زمین ’’قرق‘‘ کرنے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔
سید فخر امام بذاتِ خود ایک کامیاب ترین کاشت کار ہیں۔زرعی مسائل کو جدید ترین رحجانات کے تناظر میں بخوبی سمجھتے ہیں۔عمران خان صاحب نے حال ہی میں انہیں خوراک کا وزیر لگایا ہے۔انہوں نے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اعتراف کیا کہ بے موسم کی بارشوں نے ہمارے بے تحاشہ رقبوں میں گندم کی فصل کو نقصان پہنچایا۔ان علاقوں میں بیشتر کسان یہ سمجھ رہے تھے کہ کپاس کی فصل اُگاکر وہ اپنا نقصان پورا کرلیں گے۔ کپاس کے پتے مگر نمودار ہوئے تو ٹڈی دل حملہ آور ہوگیا۔ کپاس کے پتے اس کی مرغوب غذا ہیں۔سرکار کی بے نیازی کا عالم مگر یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں نے ابھی تک فخر امام صاحب کی وزارت کو وہ اعدادوشمار بھی فراہم نہیں کئے ہیں جو ٹھوس انداز میں ٹڈل دل کی گزشتہ یلغار کے نقصان کو بیان کردیں۔
گزشتہ حملے کے نقصانات کا ابھی تک تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکا اور موسم پر نگاہ رکھنے والے عالمی ماہرین باقاعدہ خط وکتابت کے ذریعے حکومتِ پاکستان کو متنبہ کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ اس ماہ کے آخر میں ٹڈی دل ایک بار پھر حملہ آور ہوسکتا ہے۔اس کے روکنے کا بندوبست نہ ہواتو تھرپار کر سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلے وسیع ترین رقبوں میں لگائی فصلیں تباہ وبرباد ہوجائیں گی۔میرے منہ میں خاک کسی زمانے میں ایتھوپیا میں پھیلنے والی قحط سالی کے مناظر بھی یاد دلائے جارہے ہیں۔ اسلام آباد میں اپنے گھروں میں کرونا کے خوف سے دبک کر بیٹھے مجھ جیسے ’’دانشوروں‘‘ کو ان امور کی بابت مگر سرسری آگاہی بھی میسر نہیں ہے۔فکرمندی تو بہت دور کی بات ہے۔لوگ ہمیں غصے سے ’’لفافہ صحافی‘‘ نہ پکاریں تو اور کیا کہیں؟!
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ