قاضی فیض محمد: ہاری کمیٹی کے سینئر رہنما اور حیدر بخس جتوئی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل، تحریک پاکستان کے شروعاتی دنوں میں مسلم لیگی۔ صوفی منش، گائک اور درویش۔ قاضی فیض محمد سندہ میں نام نہاد اچھوتوں اور ہاریوں میں آوتار مانے جانے والے مسعود کھدر پوش کے یار غار تھے۔
قاضی فیض محمد نے ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد میں قید و بند تشدد لامنتہائی برداشت کیا۔ وڈیروں نے ڈاکوؤں کے ذریعے انکے گھر پر حملہ بھی کروایا، جس میں انکی والدہ اور بھابھی کو چوٹیں بھی آئیں۔ یہ وڈیرا غلام نبی ڈہراج قائد اعظم کا ساتھی بھی کہلایا جو کہ وہ تھا۔ ایوب کھوڑو اور ون یونٹ کی مخالفت میں طویل قید کاٹے۔ یحی خان کی آمریت کے دنوں میں ووٹر فہرستیں سندھی زبان میں کے مطالبے پر سندھی طلبہ و طالبات کے ساتھ حیدرآباد میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے کہ پولیس نے ایک رات بھوک ہڑتال کیمپ پر ہلہ بول دیا۔ جسمیں قاضی صاحب زخمی ہوئے اور پھٹے سر کے ساتھ جیل میں بند کردیے گئے۔ قاضی فیض محمد، شیخ مجیب الرحمان کے قریبی دوست اور تبکے مغربی پاکستان میں چند گنے چنے سیاستدانوں میں سے تھے، جو شیخ مجب الرحمان کی عوامی لیگ میں آخر تک رہے۔ بلکہ قاضی فیض محمد عوامی لیگ کے نائب صدر تھے۔ بھٹو جب ایوب خان کیخلاف سیاست میں داخل ہوئے، نوابشاہ میں جب آئے تو بھٹو کے دوست اور وڈیرے راتوں رات ایوب خان کے ڈر سے غائب ہوگئے۔ قاضی فیض محمد، بھٹو کو اپنے گھر لے آیا اور بھٹو انکے مہمان رہے۔ قاضی فیض محمد جیسے صوفی و متقی انسان جو کہ بیڑی تک ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا، لیکن بطور میزبان ذولفقعار علی بھٹو کیلیے ویٹ ۶۹ وہسکی کا بھی انتظام کیا، لیکن بھٹو نے کہا قاضی صاحب کے گھر پر میں نہیں پی سکتا۔ لیکن پھر اسی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد قاضی فیض محمد کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جب وہ احرام باندھے اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج کی روانگی کیلے پرواز پر سوار ہو رہے تھے۔ قاضی فیض محمد اس سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ پیرانہ سالی میں بھی تھر سے سرحد پار کر بھارتی ایجینسیوں کے ہاتھوں گرفتار اور پھر شیخ مجیب سے رابطہ پر بنگلہ دیش پہنچے۔ لیکن وہ بنگلہ دیش میں یہ کہہ کر شیخ مجیب الرحمان کی بنگلہ دیشی حکومت کا مہمان بن کر رہنے کی پیشکش ٹھکرادی کہ انکا ملک بنگلہ دیش پہلے لٹا ہوا ہے۔ وہ اس پر بوجھ نہین بننا چاہتے۔ قاضی صاحب لندن آگئے جہاں وہ کچھ عرصہ جلاوطنی میں رہے۔ جلاوطنی اور پیرانہ سالی میں لندن میں محنت مزدوری بھی کی اور پھر خاموشی سے واپس وطن پہنچے۔ بھٹو حکومت نے انہیں کچھ وقت نظربند بھی رکھا۔ لیکن جب بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تو انہوں نے انکی جان بچانے کیلئے دنیا بھر کے سربراہان ممالک کو تاریں کیں۔ انکو بھٹو کی پھانسی پر سخت صدمہ ہوا اور انہوں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا۔ میرے دوست قاضی جاوید انکے بیٹے اور سندھی ایسیوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کی نائب صدر ارشاد عباسی انکی صاحبزادی ہیں۔ ارشاد عباسی بتاتی ہیں کہ جب وہ بچی تھیں تو قاضی صاحب ان بہن بھائیوں کو کار میں بھر کر حیدرآباد کے قریب قومی شاہراہ کے کنارے پکنک کو لیکر گئے۔ کچھ وقت کے بعد قومی شاہراہ پر غیر معمولی نقل حرکت ہوئی کہ وہاں سے آمر صدر آیوب خان کو گذرنا تھا۔ جیسے ایوب خان کی کاروں کا ایک قافلہ قریب گذرا تو قاضی صاحب نے کار کی ڈکی سے ایک بینر نکال کر ایک سرے سے خود پکڑا اور دوسرے سرے سے بچوں کو پکڑو آیا ۔بینر پر تحریر تھاا “ایوب خان گدھا ہے”۔بس پھر کیا تھا کہ “بابا کو تو پولیس اسی وقت گرفتار کر کے لے گئی۔ لیکن بچوں کو گھر پہنچایا۔
بعد از مرگ بنگلہ دیشی حکومت نے قاضی فیض محمد کو انکی بنگلہ دیش کے دوست کے طور اعتراف کرتے ہوئے انکو ایوارڈ دیا جو حسینہ واجد کے ہاتھوں جاوید اور اسکی اہلیہ ڈاکٹر خدیجہ نے وصول کیا۔ قاضی صاحب نے زندگی کی آپ بیتی “منھنجو سفر” میرا سفر کے نام سے لکھی ہے جس میں انہوں نے حیدر بخش جتوئی اور جی ایم سید ے اپنی قربت اور اختلافات کا بھی کھلی طرح ذکر کیا ہے۔
قاضی فیض محمد سندھی کا پہلا سائنس فکشن لکھاری کہلائیں گے انہوں نےایسا پہلا ناول “۲۲۲” لکھا۔
کامریڈ میر محمد تالپور: یہ حیدر بخش جتوئی کے بہت ہی قریبی اور بے تکلف ساتھیوں میں سے تھے۔ حس مزاح میں بھی انکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ٹنڈو جام کے متمول تالپور خاندان سے تعلق ہوتے ہوئے قید و بند بھی کاٹے۔ لیکن وہ ہاری حقدار کی سیاست اور آدرشوں پر قائم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شروعاتی دنوں انے سیاست میں آنے پر انکے ساتھ میں شریک تھے۔ ایک دفعہ بھٹو علی احمد تالپور کے بنگلے پر پیپلزپارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انکی پارٹی ہاریوں کسانوں کی پارٹی ہے۔ تو اس پر کامریڈ میر محمد خان اُٹھ کھڑے ہو کر کہنے لگے بھٹا صاحب یہ جو تمہارے دائیں بائیں دبنگ وڈیرے بیٹھے ہیں لگتا ہے یہ سب میر بندہ علی تالپور کے بے زمین ہاری ہیں۔ ایک دفعہ جام صادق علی انکے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ وہ جب سندہ کے وزیر اعلی تھے تو وہ اسکے ساتھ الطاف حسین سے ملاقات پر نوے زیرو پر گئے تھے جہاں الطاف نے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ جام صادق علی سندھی میں کہنے لگے کامریڈ اس “کتے کے بچے” کو کھانے کا نوالہ پہلے خود لینے دو، کہیں زہر نہ ڈلوا دیا ہوا۔ ایک دفعہ وہ کسی کے کام کے سلسلے میں ایک وزیر کے دفتر فون کیا تو وزیر کے سیکرٹری نے کہا “وزیر صاحب باتھ روم میں ہیں” جب بھی کامریڈ میر محمد فون کرتے رہے جواب ملتا رہا کہ “وزیر صاحب باتھ روم میں ہیں” آخری بار فون کرتے کامریڈ نے سیکرٹری سے کہا وزیر سے کہنا جب تک ایم کیو ایم ہے تم لوگ باتھ روم میں ہی رہو گے۔
جب اپنے پرانے بچپن کے دوست گلاب سے ملنے بھارت گئے تو وہاں انہوں نے برصغیر میں آزادی کی رہنما ارونا آصف علی سے بھی ملاقات کی تھی۔ ارونا آصف علی اپنے کراچی میں روپوشی کے دن یاد کرنے لگی تھیں، جب وہ انگریزوں کے خلاف ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران عبداللہ ہارون کے گھر پر چھپی ہوئی تھیں (جب آل انڈیا کانگرس کی تمام قیادت گاندھی نہرو اور مولانا آزاد سمیت قید کردی گئی تو تحریک کی قیادت ارونا آصف علی نے سنبھالی تھی) جہاں عبداللہ ہارون کا ایک بیٹا انکے بٹوے سے پیسے نکال لے جاتا تھا۔ وہ محمود ہارون تھا۔ جب میر محمد تالپور نے انہیں بتایا کہ ہ اب فوجی آمر ضیا الحق کا وزیر داخلہ ہے اور اسی نے ہی بھٹو کے بلیک وارنٹ پر دستخط بھی کییے ہییں۔ تو کامریڈ کہتے تھے یہ سن کر ارونا آصف علی نے اپنے دونوں ہاتھ تاسف میں۔ اپنے ذانوں پر مارے تھے۔
کامریڈ میر محمد تالپور سب کو منہ پر سنایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ سانگھڑ مری قبیلے کے گائوں گئے جہاں مریوں کا سردار لیکن حریت پسند رہنما خیر بخش مری وہاں کے وڈیرے غلام قادر مری کی دعوت پر آیا ہوا تھا۔ ایک خیمے میں خیر بخش مری کا قیام۔ تھا۔ کامریڈ میر محمد تالپور نے خیر بخش مری سے کہا نواب صاحب تم یہاں آئے تو ہوئے لیکن یہ وہ مری ہیں جنہوں نے تمہارے دادا کے خلاف انگریزوں کو چغلیاں لگائی تھیں۔”۔ ایسا لگتا تھا کہ کامریڈ میر محمد تالپور وہ سپاہی ہے جو میانی کی جنگ سے ابھی واپس نپیں لوٹا۔ کامریڈ کی دو کتابیں ہیں “سفید چہرے، کالے چہرے”
جاری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر