چند ماہ پہلے ملک بھر میں ٹماٹروں کی دستیابی میں کمی آئی تو شہریوں نے دہائی مچا دی۔ ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی کبھی کبھار قلت پیدا ہو جائے تو ہمارے ٹیلی وژن پروگراموں کے میزبان خواتین و حضرات کا لب و لہجہ اور تکرارِ کلام دیکھنے اور سننے کا مزا ہی اور ہوتا ہے۔
مہنگائی کا بم زیادہ تر حکومت سے منسوب کر کے لگتا ہے‘ وہ خود ہی گرا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی چینی‘ کبھی پٹرول‘ کبھی آٹا اور اکثر آلو‘ ٹماٹر اور پیاز کے بھائو ہمارے سیاسی پروگراموں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
ٹماٹروں کی کمی ہوئی تو ایک پروگرام میں یہ خاکسار مدعو تھا۔ بات موڈی کے پاکستان کی معیشت کو بہتر کارکردگی کی بنیاد پر مثبت خانے میں لانے کی ہو رہی تھی۔
میں نے گزارش کی کہ موڈی عالمی سطح پر کسی معیشت کو اگر بہتری کی جانب قرار دے تو سب ماہرین اس پر کان دھرتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں‘ ان اداروں کی ایک ساکھ ہے‘ ایک مقام ہے اور ان کی ہر بات سند کا درجہ رکھتی ہے۔
خاتون میزبان نے بات ٹوک کر مداخلت کی اور فرمایا کہ ٹماٹر تو چار سو روپے فی کلو بک رہے ہیں‘ آپ کس معیشت کی کس بہتری کی بات کر رہے ہیں؟
ایک دفعہ نہیں بلکہ اس پروگرام میں کم از کم چار دفعہ انہوں نے ٹماٹر چار سو روپے فی کلو کی رٹ لگائی۔ وہ اس تکرار میں اکیلی نہیں تھیں۔ بہت سے اور میزبان بھی ہفتوں تک ٹماٹر چار سو روپے کلو ہی عوام کو بتاتے رہے۔ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا کہ واقعی انہوں نے چار سو روپے میں ٹماٹر خود خریدے ہوں گے‘ مگر اس بات کا یقین ہے کہ ملک بھر میں انہوں نے ٹماٹروں کی مہنگائی کے بارے میں ایک فضا قائم کر دی۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ٹماٹر ایران سے کیوں درآمد نہیں کئے جاتے۔
بھارت سے کشیدگی کی وجہ سے سرحد کے اس پار سے ہماری سبز منڈیوں کے مگر مچھ ٹماٹروں اور سبزیوں کے کاروبار میں مندی محسوس کر رہے تھے۔ جو فضا ان کے کاروبار کے لئے موزوں تھی‘ وہ جانے انجانے میں چار سو روپے فی کلو ٹماٹر کے بھائو نے بنا دی۔ حکومت میں بیٹھے ان کے اتحادی کل پُرزے حرکت میں آئے اور حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے حسبِ معمول طے یہ پایا کہ ٹماٹر درآمد کئے جائیں‘ سو کر لئے گئے اور اندازہ یہ ہے کہ پچاس کروڑ تک کے درآمد ہوئے۔ کچھ کمزور آوازیں اٹھیں کہ ٹھہرو‘ تھوڑا انتظار کر لو‘ موسمی تبدیلی کے باعث فصل ذرا تاخیر کا شکار ہے‘ ہماری نئی فصل جلد بازار میں آنا شروع ہو جائے گی‘ مگر کمزور آواز کون سنتا ہے؟
جب کھانے پینے کی اشیا‘ پھلوں‘ سبزیوں اور اناج کی درآمد کے منصوبے بن رہے ہوتے ہیں تو میرے دل میں یہ وسوسہ رہتا ہے کہ بے چارے کسان اور چھوٹے زمینداروں کے ساتھ ہاتھ کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ خیر وسوسے کی بات تو میں یونہی کہہ دی‘ کھل کر بات کروں تو سازش کیا لوٹ مار کے منصوبے مسلسل جاری رہتے ہیں۔
پُرانے دوست اور علاقے کے نوجوان‘ ہردلعزیز سابق رکن پنجاب اسمبلی سردار عاطف حسین مزاری کے ناگہانی اور افسوسناک قتل پر تعزیت کے سلسلے میں راجن پور اور اپنے گائوں جانے کا اتفاق ہوا۔ سردار صاحب اپنا گھر‘ ڈیرہ اور مستقل رہائش ہمارے گائوں میں اپنی زمینوں پر ہی منتقل کر چکے تھے۔
بس ایسا سانحہ کہ سب لوگ دل گرفتہ ہیں‘ ایسا دکھ چھوڑ گئے کہ کوئی مداوا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ راجن پور جانے کی اصل وجہ تو ان کے خاندان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہی تھا‘ مگر چند دن وہاں قیام کر کے اپنی ٹوٹی پھوٹی‘ فاصلاتی زمینداری کے کام بھی نمٹائے کی ادھوری کوشش کی۔ یہ ایسے کام ہیں کہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جو زمینداری سے منسلک ہیں‘ وہی سمجھ سکتے ہیں۔
میری ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ ہر فرد‘ ہر گھرانہ اور ہر کسان اپنی سبزیاں نہ صرف خود کھانے کے لئے پیدا کرے بلکہ زیادہ پیدا کرے اور منڈیوں میں جا کر فروخت کرے۔ ہر دفعہ اصرار کرتا ہوں کہ سبزی اگر مقامی ہے تو ضرور پکائیں‘ ورنہ دال ہی رہنے دیں۔ شہروں کے قریب اگائی گئی سبزیوں کی آبیاری آلودہ پانی سے ہوتی ہے‘ جو صحت کے لئے مضر ہے۔ اس دفعہ خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آئی۔
بازار سے گزر کر ہی باہر جانا ہوتا ہے۔ ہر طرف تازہ‘ اعلیٰ ترین قسم کی سبزیوں کے انبار دیکھے۔ نظر نہایت ہی صحت مند لال ٹماٹروں پر پڑی۔ بھائو پوچھا تو حیرت ہوئی‘ صرف دس روپے کلو۔ بلوچ قبائل بلوچستان کی سرحد کے قریب کچھ علاقوں میں خربوزے کاشت کرتے ہیں۔ ایسا میٹھا اور لذیذ کہ بندہ بس کھاتا ہی رہ جائے۔ یقین جانیں‘ کوئی دن خربوزے کھائے بغیر نہیں گیا۔
شاید ہی اتنا سستا کبھی سنا ہو یا دیکھا ہو۔ صبح صبح خربوزہ دس روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے‘ بالکل تازہ۔ شام تک ٹماٹر اور خربوزے کی قیمت دس سے کم ہو کر آدھی رہ جاتی ہے۔ یہی حال کدو‘ ٹینڈے‘ سبز توری اور سبز مرچ کا ہے۔
مولا بخش جسے عرفِ عام میں دوست احباب مولا کہتے ہیں‘ کسی زمانے میں میری زمین کے ٹکڑے پر کام کرتا تھا۔ یاد پڑتا ہے‘ تقریباً پچیس سال پہلے۔
اب وہ سبزی کے کاروبار میں مصروف ہے۔ پہلے تو وہ راجن پور کی منڈی سے خرید کر لاتا تھا‘ اب وہ زمین ٹھیکے پر لے کر سبزیاں اگاتا ہے۔ اس نے سات ایکڑ پر سبزیاں کاشت کی ہوئی ہیں۔ ٹماٹر تقریباً تین ایکڑ پر ہیں۔ اس سے پوچھا کہ اتنا سستا ٹماٹر کیوں اور دیگر سبزیاں بھی؟ تو جو کچھ ہمارے کاشت کاروں کو سمجھ آتا ہے‘ یہ ہے کہ اس دفعہ ریٹ نہیں لگا۔ دکھ سے اس نے کہا کہ راجن پور منڈی میں پندرہ کلو ٹماٹروں کا تھیلا ستر روپے میں بکتا ہے اور سبز مرچ ستر روپے کی پانچ کلو۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ زمینی حقائق معلوم کر کے اور لوگوں سے بات چیت کر کے حالات کے بارے میں تبصرہ کیا جائے۔ اگر کسی کو شک ہو‘ یا اگر تازہ سبزی‘ پاک صاف زمین پر کاشت شدہ اور صاف پانی سے سیراب کی گئی‘ کی ضرورت ہو تو مولو کا فون نمبر میرے پاس محفوظ ہے۔
سوچتا ہوں کہ یہ کاشت کار اور ہزاروں اس جیسے کیوں خسارے میں رہتے ہیں؟ مولو نے مجھے یہ بتایا کہ اب وہ ٹماٹروں کی تیار فصل اجاڑ کر کچھ اور کاشت کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے پھلوں اور سبزیوں کی بربادی‘ ضیاع اور کم قیمت پر فروخت یونہی ہوتی رہے گی‘ اگر زرعی پیداوار کو کھپانے کے لئے صنعت نہ لگائی گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ٹماٹروں کی اس علاقے اور دیگر علاقوں سے فصل کو کوئی صنعت ہی اٹھا لیتی۔ اور ایسا کیوں ہے کہ ہمارے تاجر درآمد کرنے پہ تو اصرار کرتے ہیں‘ مگر برآمد کرنے میں وہ گرمجوشی نہیں دکھاتے۔ کسی اور کے دکھ کی آڑ میں اپنا دکھ بھی آپ کے سامنے رکھنے کے لئے معافی کا خواست گار ہوں۔ کہیں دور‘ اپنے گائوں میں نہیں‘ اسلام آباد کے مضافات میں‘ کاشت کاری مستقلاً جاری رہتی ہے۔
اس دفعہ صرف گیارہ پیڑوں سے ایک ہزار کلو گرام آڑو پیدا کیا۔ صرف تین سو چالیس کلو گرام ایک مشہور کمپنی نے خریدے۔ دوستوں میں تقسیم کرنے کے بعد بھی تقریباً آدھی فصل ضائع ہو گئی۔ تین سو کلو گرام آلو بخارا بھی نہ فروخت کر سکا‘ گائوں جا کر تقسیم کر دیا۔ کوئی تو نظام ہو‘ کوئی تو طریقہ ہو‘ کہیں تو حکومت نظر آئے‘ کہیں تو فعال اور دیانتدارانہ منڈی کا نظام ہو کہ مولو اور میرے جیسے کاشت کاروں کے علاوہ ہزاروں چھوٹے زمینداروں کی مہینوں اور برسوں کی محنت ضائع نہ ہو۔ اب بھی تو ٹی وی پر کوئی بات کرے‘ کاشت کار کا اگایا ہوا ٹماٹر دس روپے کلو سب کھاتے ہیں لیکن روزانہ صبح اور شام یہ بھی تو کوئی بتائے کہ قیمتیں جب گرتی ہیں تو ان کے چولہے ٹھنڈے اور باقیوں کے گرم رہتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ