یہ شاید برصغیر میں علامہ عنایت اللہ مشرقی کے خاکساروں کے بعد حیدربخش جتوئی کے ساتھی تھے جو سندہ میں جانفشانی، کمٹمنٹ، قربانیوں اور عوامی خدمات کو ہر وقت سرگردان و کو کوشاں رہا کرتے۔ یہ لوگ اپنے اعمال میں کچھ کچھ بوائے اسکائوٹس، کچھ گاندھی کے چیلوں اور کچھ باچا خان یا بادشاہ خان عبدالغفار کے خدائی خدمتگاران سے ملتے جلتے تھے۔
لیکن یہ منفرد قسم کے لوگ تھے۔ وکھرے الگ جو سندہ میں “ہاری ورکرز” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ میں انہیں حیدر بخش جتوئی کے اصحابی کہوں گا۔
یہ عجب انسان تھے۔ابوذری قسم کے لوگ۔ کبھی جیل میں کبھی ریل میں کہاوت ان ہی لوگوں کے بارے میں بنی ہوگی۔پسے ہوئے عوام کے حقو ق کیلے ،خاص طور سندہ میں ہاری کیلے جہد مسلسل کے مینار لوگ۔ اکثر انتہائی غریب و مساکین لیکن دل کے بہت بڑے اور فیاض لوگ۔
ان میں دیوبندی اور شیعہ مدرسوں کے فارغ التحصیل بھی تھے، کمیونسٹ بھی تھے، کانگریسی بھی تھے۔ مسلم لیگی بھی تھے، تو قومپرست بھی۔ کچھ چند کالجوں بشمول علی گڑہ، ٹیگور کےشانتی نکیتن، چاہےبمبئی کے پڑہے ہوئے بھی، جیسا کہ حیدر بخش جتوئی خود ڈپٹی کلکٹری کے عہدے کو لات مارکر سندہ ہاری کمیٹی میں آکر شامل ہوئے تھے۔ یہاں میرا موضوع یہ نہیں ہے۔ سندہ ہاری کمیٹی غیر ہاری کھاتے پیتے یا خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں پر سندھ کی مفلوک الحال مخلوق ہاریوں کی ہمدرد شخؐصیات جیسے جی ایم سید، جمشید نسروانجی مہتا وغیرہ نے (انیس سو تیس کی دہائی میں قایم کی تھی۔) ان میں چھوٹے زمیندار گھرانوں کے چشم و چراغ بھی تھے، تو پیشہ ور حکیم ،وکیل، مولوی، بے زمین ہاری بھی تو استاد و مزدور بھی۔ لیکن یہ قلندر لوگ تھے۔ میرا یہاں موضوع حیدربخش جتوئی کے ایسے ہی ساتھی ہیں۔ان میں سے کن کو حیدر بخش جتوئی خود قلندر یا پپران پیر کہا کرتے۔ یہ خدا کے اخلاق جیسے لوگ۔
حاضر جواب، ذہین فطین،انتہائی حس مزاح سے مسلح، کھدرپوش، کئی شاعر اور زبردست ادیب بھی، عوامی خدمتگذار لوگ، انہی لوگوں نے نہ فقط سندہ میں بڑے بڑے دبنگ وڈیروں جاگیرداروں، بیورکریٹوں اور ظالم پولیس والوں کا خوف ختم کردیا بلکہ انہی دبنگ فراعین کے دلوں میں ہاری اور بے وسیلہ لوگوں کے حق میں ایک خوف بھی پیدا کردیا۔ “ بھاگ وڈیرا ہاری آئےنعرہ بنا۔ یا جو بوئے وہ کھائے۔” ہاری ورکروں کا خوف۔ نڈ ر لوگ، جنہیں عوام دشمن لوگ “بلیک ملیر” کہتے۔ کہ انکو دیکھ کر تحؐصیلدار اپنی کرسییاں پٹواری پٹوار چھوڑ کر بھاگ جاتے، یہ کچہری ہو کہ ہسپتال کہ تھانہ کیا چھاؤنیوں تک سائل مظلوم لوگوں کے ساتھ انکو انصاف دلانے چل پڑتے۔ ان میں کچھ خوشحال لوگ بھی تھے۔
پر انہوں نے سندہ میں حقیقی عوامی جدوجہد کی بنیاد رکھی، جسے مارکسوادی لوگ طبقاتی جدوجہد کہہ سکتے ہیں۔
پتہ نہں لوگ کیوں کہتے۔ ہیں کہ ہاری کو زبان بھٹو نے دی۔ دی ہوگی لیکن سندہ میں ہاری کو یہ زبان حید بخش جتوئی اور اسکے ہاری ورکروں نے دی۔
آئو کہ حیدر بخش جتوئی کے ان اصحابیوں کو یا د کریں۔
غلام محمد لغاری اور غلام حیدر لغاری: یہ دو یگانے انسان آپس میں کزن تھے اور سالا بہنوئی تھے۔ کامریڈ غلام محمد لغاری نے میرپور خاص سے سچ ڈایجسٹ نام کا جریدہ اور سچائی اخبار جاری کیے ۔ اکثر جیلوں میں رہے یا پھر شھر بدری اور صوبہ بدری میں رہے۔ یہانتک کہ جب وہ فوت ہوئے اس دن بھی پولیس انکی گرفتاری کے وارنٹ لیکر انکے گھر پر پہنچی تھی۔ ایوب خان کا دور ہو کہ یحیی خان یا ذوالفقار علی بھٹو کا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں انکا جریدہ سچائی بند ہوا اور انکے وارنٹ گرفتاری نکلے تو وہ کوئٹہ چلے گئے جہاں ان دنوں غوث بخش بزنجو وزیر اعلی تھے تو انہوں نے سچائی کا اجرا کوئٹہ سے کیا۔
ان سے کہانی وابستہ ہے کہ ایک دفعہ کسی بے پھنچ آدمی نے آکر شکایت کی کہ اسکی بیوی علاقے کے طاقتور پیر نے اپنی حویلی میں بٹھا رکھی ہے زبردستی۔ تو اس نے اس مسکین سے کہا چل میرے ساتھ۔ سیدھا پیر کی حویلی میں گھس گیا کامریڈ اور مسکین آدمی سے کہا اب ان عورتوں میں سے تمہاری بیوی کون سی ہے۔ اور اسی طرح اس غریب آدمی کو اپنی بیوی واپس کروائی۔ وہ ہر برس اپنے علاقے نبی سر میں ایک میلہ کرواتے جو “نانگن جو میلو” کے نام سے مشہور تھا۔ انکے کزن کامریڈ غلام حیدر بھی ھمیشہ ہاری حقوق کیلے تکالیف اور قید و بند میں رہے۔میرے دوست شاعر مظہر لغاری انکے بیٹے اور بہن اور شاعرہ گلشن لغاری انکی بیٹی ہے۔ غلام محمد لغاری انکے ماموں ۔ انکے گھر کا نام بھی سچائی منزل” تھا جہاں ہر وقت ساتھی کامریڈ اور ضرورت مند سائلوں کا آنا جانا بندھا رہتا تھا۔
سندہ کے اپنے دور کے دو مشہور مشہور طالب علم رہنما یوسف لغاری بھانجے ار مہر حسین شاہ کامریڈ غلام محمد لغاری کے سوتیلے بیٹےہیں۔ مہر حسین شاہ اور کامریڈ لغاری کا رشتہ ایک الگ داستان ہے۔
علاؤالدین سموں: اس مرد مجاہد کو جاننے والی نسل بھی اب تقریبن ختم ہوچکی ہے۔ یہ حیدر بخش جتوئی کے جری اور جیالے ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق میرے شہر سے تھا۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے۔ انکی تحریریں سندہ میں وڈیروں کے چھکے چھڑا دیتی تھیں تھیں۔ تمام عمر ایوب کھوڑو جیسے آمر چیف منسٹر سے انکی لڑائی رہی اور پاداش میں جیلوں میں رہے۔ جہاں انکا قلم کام نہیں کرتا تھا وہاں کامریڈ سموں اپنے ہاتھ کو بھی چھوٹ چھوڑ دیتے تھے۔ لاتوں کے بھوتوں کو منوانا بھی انہیں اچھی طرح آتا تھا۔ غریب سندھیوں کی ملکیتوں پر سندہ کے شہروں میں کلیم کے نام پر بلوائی قبضہ گیروں سے بھی دستی پنجہ آزمائی کی۔ آ پھر ون ٹو ون ۔ بلکل باکسر کی طرح۔ مظلوموں کے حق میں میدان میں اترتے۔ حیدر بخش جتوئی کے ایک اور ساتھی قاضی فیض محمد سے انکی پھر رشتہ داریاں قائم ہوئیں۔ اور وہ نوابشاہ اور کراچی میں رہے۔ سندہ کے اس یگانے قلندر صفت کردار کو اب سندہ نے بھلا بھی دیا ہے۔ انکی اولاد میں سے اب دو چند انکے شاید نواسے اور نواسیاں حیات ہیں جو نوابشاہ میں رہتے ہیں۔
حکیم محمد معاذ: یہ جو مشہور مشروب “معاذ تھادل” شاید آپ کو یاد ہو یہ ان حکیم معاذ کی ایجاد ہے جنکا نوابشاہ میں معاذ دواخانہ مشہور تھا۔ یہ بھی حیدر بخش جتوئی کے قریبی ساتھی اور ہاری ورکر تھے۔ حسرت موہانی کے پیروکار۔ اسی حوالے سے حاکم علی زرداری بھی انکے پیروکاروں میں تھے۔ جو بات زیادہ مشہور ہے وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری کا جنم بھی حکیم محمد معاذ کے ہی گھر پر ہوا تھا۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ