لاک ڈائون کے دوران ہماری روز مرہ کی زندگی کیسے گذر رہی ہے اور کچھ مسائل کے حل کے لئے ہم نے کیا کیا۔
مارچ 2020ء میں جب حکومت نے اسکول بند ہونے کا اعلان کیا تو ہم نے اپنے بچوں کا باہر نکلنا بند کردیا اور ان کو وہ وائرس سے بچنے کے لئے وہ سارے حفاظتی اقدامات بتائے جو ٹی وی اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے بتائے جاتے رہے۔ باہر کے سامان کے لئے میں اور میری بیوی میں سے کوئی ایک خریداری کے لئے جاتا ہے۔ تاکہ اگر کسی کو وائرس لگے تو دوسرا کام کر سکے۔
میرے بچے پہلے بھی موبائل پر زیادہ وقت گذارتے تھے اور اب بھی اسی طرح وقت گذارتے ہیں۔ فرق یہ ہے کے گھر پر بیٹھنے کی وجہ سے اب زیادہ وقت موبائل پر بتاتے ہیں، کیوں کے ان کی کوئی جسمانی سرگرمی یعنی کھیل کود وغیرہ نہیں ہے۔
اس وبا سے قبل اسکول میں کبھی کبھی اسپورٹس ایکٹوٹی یا پکنک ہوتی رہتی تھی۔ اسپورٹس ایکٹوٹی بھی صرف بیٹے کے لئے ہوتی تھی، اس مسئلے کو بھی اٹھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام آباد کے نجی اسکولوں میں لڑکیوں کو یہ سرگرمی کیوں نہیں کرائی جاتی؟
بچے مکمل طور پر گھر پر رہنے کی وجہ سے بوریت محسوس کرنے لگے تو ہم نے ان کی تفریح کے لئے 2 طوطے خریدے، لیکن جلد ہی بچوں کی دلچسپی پھر سے کم ہونے لگی۔
تقریباﹰ دو مہینے کے بعد یعنی مئی 2020ء میں اسکول نے بیٹے کے لئے آن لائن کلاسیں شروع کیں، جن میں بھی کوئی مقرر شیڈول نہیں ہوتا تھا اور اسکول کا میسج آتا تھا کے 9 بجے کلاس شروع ہوگی۔ لیکن صبح لاگ ان ہونے کے بعد پتہ چلتا تھا کے کچھ کلاسیں کینسل ہوگئیں ہیں اور دوسری کلاس کس وقت شروع ہوگی۔ ان باتوں سے میرا 14 سال کا بیٹا اور زیادہ چڑچڑا ہونے لگا اور پھر وہ کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کرتا تھا۔
اسکول انتظامیہ کو میں نے شکایت لگائی لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔ بیٹے کی یہ صورتحال دیکھ کر میں نے اس سے بات کی اور یہ فیصلہ لیا کے اس کو میوزک اور آرٹ کا شوق ہے تو میوزک سکھانے کے لئے اس کو ایک ٹیچر رکھوا دیا،
اب بیٹا ہفتے کے تین دن میوزک سیکھتا ہے۔ اس سرگرمی سے اس کی طبیعت پر مثبت اثر پڑا ہے۔ عید کے بعد اسکول والوں نے ریگولر کلاسیں دینا شروع کردی ہیں جس کی وجہ سے بیٹا دلچسپی لینے لگا ہے۔ اس کے علاوہ انہی باتوں کے دوران بیٹے میں مردانہ خاصیتیں ابھر کر سامنے آنے لگیں ، جس کا اس نے صرف مجھے واٹس ایپ میسج کے ذریعے ذکر کیا اور وہ اس کو ایک بیماری سمجھنے لگا۔
میں نے اپنی بیوی سے بات کی اور اس نتیجے پر پہنچے کے میں بیٹے کو اس کے بارے میں بتائوں گا۔ جب بیٹے کو سمجھایا تو اس نے جسمانی کمزوری کا بھی ذکر کیا اور پھر میں نے اپنے ڈاکٹر دوستوں سے بات کی جنہوں نے ملٹی وٹامن یا پھل کھانے کا مشورہ دیا۔ اب بیٹے کے لئے اس کی پسند کے پھل لے آتے ہیں۔
میری بیٹی 11 سال کی ہے۔ بیٹی سے بھی میوزک سیکھنے کے حوالے سے بات کی لیکن اس نے شوق نہ ہونے کی وجہ سے انکار کردیا اور کمرے میں جھولا یا سائیکل کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن وہ ابھی تک وائرس کے باعث مارکیٹ میں حالات کی وجہ سے نہیں لے سکے۔
اسی دوران میری بیگم ، بیٹی کو کھانا پکانے اور گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ بیٹی کے آن لائن کلاس عید کے بعد شروع ہوگئی ہےاور ریگیولر چل رہی ہے۔
عید سے پہلے مجھے ہفتے میں تین دن آفس جانا تھا اب روزانہ جانا پڑتا ہے۔ آفس میں سارے حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں لیکن مجھے آفس ٹیکسی میں آنا جانا پڑتا ہے، اسی لئے میں زیادہ احتیاط کرتا ہوں۔
گھر پہنچنے پر جب گھنٹی بجاتا ہوں تو میرا دو سال کا بیٹا دوڑ کر آتا ہے، لیکن اس کو منع کرنا پڑتا ہے کے میرے قریب نہ آئے۔ جس سے وہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوجاتا ہے اور یہ روز ایسا ہوتا ہے۔ پھر خود کو ڈس انفیکٹ کرتا ہوں اور کپڑے بدل کر اور نہا کر پھر بیٹے کو مناتا ہوں اس کے بعد وہ میرے ساتھ کھیلنا شروع کرتا ہے۔
اس ساری صورتحال کے کچھ مضر اثرات یہ ہوئے ہیں کے میری بیوی پر کام کا بوجھ زیادہ ہوگیا ہے اور وہ نیند کم ہونے اور کمزوری کی شکایت کرنے لگی ہیں۔ ہم نے سوچا ہے کے اب ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے اورہم نے مشورہ کیا ہے کے سائکاٹرسٹ کو بھی ایک بار وزٹ کر لیں۔
ان سارے تجربات سے میں نے یہ سیکھا ہے کےلاک ڈائون کی صورتحال میں بچوں کو کسی طرح بھی مصروف رکھا جائے، اس کے لئے ان کی دلچسپی والی چیزیں کرنی پڑتی ہیں اور ان کی دلچسپی وہ خود ہی بتاسکتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا بہت ضروری ہے تاکہ اس دوران آپ کو اپنے ہمسفر کے ساتھ بات چیت کا وقت بھی مل جاتا ہے اور بیوی کا تھوڑا بوجھ کم ہوجاتا ہے۔ بچوں کو ہر چیز صاف صاف بتائیں، ان سے کوئی بھی بات چھپانے کی ضرورت نہیں۔ بچے سمجھدار ہوتے ہیں اور صورتحال کے پیش نظر اپنے آپ کو ڈھال لیتے ہیں، جس سے آپ کو گھر کے فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
میں چاہوں گا کے لاک ڈائون کے دوران آپ بھی اپنے اچھے تجربات بیان کریں تاکہ ہم سب کو اس سے فائدہ حاصل ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر