میز پر گھومتی گھما دینے والی گیم ’روبکس کیوب‘ یا ’جادوئی پزل‘ کے تمام خانے ایک جیسے مگر رنگ الگ تھلگ۔ ’بظاہر‘ عوام کے ہاتھوں منتخب سیاسی حکومت کی اس پزل گیم نے عوام کو الجھا دیا ہے۔ ہر سوال چونکہ، چنانچہ، اگر، مگر، کیونکہ میں گم دکھائی دیتا ہے۔
اسلام آباد کی کلب روڈ پر نیشنل کمان اور آپریشن سینٹر کے اجلاس میں موجود ہر اہم شخص بہت محنت سے اعداد و شمار جمع کیے بیٹھا ہے۔ پاک فوج کے ماہر جرنیل اور کپتان کے اوپننگ بلے باز اسد عمر صحافیوں کو محنت سے تیار کیے محتاط اقدامات اور ممکنہ حالات سے آگاہ کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سامنے لگی بڑی سکرین پر سجے اعداد و شمار سے سب ٹھیک لگ رہا ہے۔ اسد عمر کے چمکتے چہرے اور جنرل گورایا کے مطمئن لہجے میں یہ اطمینان موجود ہے کہ ملک میں نہ تو وینٹی لیٹرز کی کمی ہے اور نہ ہی صحت کے انتظامات میں کوئی خامی۔
اُن کے اطمینان کی بے حد وجوہات ہیں مگر۔۔۔ سب خامی اس “مگر” میں چھپی ہے۔ زمینی حقائق، اصل اعداد و شمار اور انتظامات۔۔۔ صحت کے محاذ پر لڑنے والے عملے کو لاحق خطرات، آلات کی کمی، مقامی سطح پر بدانتظامی کا جواب “مگر” کسی کے پاس نہیں۔
ممکنہ طور پر قومی کمان اور رابطے کی کمیٹی اپنا کام بہترین کر رہی ہے ’مگر‘ عملدرآمد بہر حال انتظامیہ کاکام ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ انتظامیہ کون ہے؟ میرے خود سے ہی پوچھے گئے اس سوال کا جواب کس کے پاس ہو گا؟
وزیرا عظم بار ہا کہہ چکے کہ وہ لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں، وہ کروڑوں لوگوں کو بے روزگار نہیں چھوڑ سکتے، وہ لوگوں کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتے ‘مگر’ ۔۔۔ ساڈے تے نہ رہنا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا انتظامی ناکامی کو تسلیم کر رہے ہیں ’مگر‘ کس کی ناکامی؟ فوج کی؟ کیونکہ تقریبا ہر اہم ادارے کی سربراہی کسی سابق فوجی کے پاس ہے جو ذمہ دار تو ہے ’مگر‘ جوابدہ نہیں۔۔۔ یا سیاسی حکومت کی؟ جس کا وزیراعظم یہ کہہ کر بری الذمہ ہے کہ نقصان کے ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔
وزیرا عظم بار ہا کہہ چکے کہ وہ لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں، وہ کروڑوں لوگوں کو بے روزگار نہیں چھوڑ سکتے، وہ لوگوں کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتے ’مگر‘ ۔۔۔ ساڈے تے نہ رہنا۔
جناب وزیراعظم! آپ منتخب ہیں یا چُنیدہ، صحیح ہیں یا غلط۔۔۔ عوام کو جوابدہ آئین کے مطابق (اگر عملاً کوئی آئین موجود ہے) آپ ہیں۔
جناب وزیراعظم! جب عوام اپنے ذمہ دار خود ہیں تو آپ ایک بار لاک ڈاؤن کر دیتے، عوام کے آسرے کو ہی صحیح ایک بار بتا دیتے کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں تو مسئلے کا حل ہے کیا؟
بار بار لاک ڈاؤن کے نقصانات گنوانے والے اور عوام کا درد جتانے والے وزیراعظم نے ایک بار بھی کوئی حل پیش کیا ہے سوائے عوام کو وائرس کے سامنے پھینکنے کے؟ سندھ ہو یا پختونخواہ، آج تک تحریک انصاف کے رہنما عوام کو یہ بتاتے دکھائی دیتے ہیں کہ وائرس محض زکام ہے، سندھ حکومت کا لاک ڈاؤن غلط تھا، پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس، بیان پر بیان اور عملی اقدامات۔۔۔
جناب وزیراعظم! آپ منتخب ہیں یا چُنیدہ، صحیح ہیں یا غلط۔۔۔ عوام کو جوابدہ آئین کے مطابق (اگر عملاً کوئی آئین موجود ہے) آپ ہیں
وزیراعظم کا فرمان ہے کہ وہ ایسا لاک ڈاؤن نہیں چاہتے تھے تو پھر کیسا لاک ڈاؤن چاہتے تھے؟ عوام کو ہی بتا دیجیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام سے راہ فرار اختیار کرنے کا جواز بنا لیا گیا ہے۔
عوام کے سامنے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار اپنی جگہ ’مگر‘ ان کی تصدیق کہاں کی جائے؟ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پروجیکٹڈ کورونا کیسز کی تعداد چھ لاکھ 70 ہزار پندرہ مئی کو وزیراعلی کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ لیکن شاید چینی سبسڈی کی طرح اُنھیں یہ بھی یاد نہ ہو کہ ایسی کوئی سمری کبھی پیش بھی ہوئی تھی؟
کیا کسی بھی سطح پر یہ سوال پوچھا گیا کہ کورونا وائرس سے لے کر اب تک وائرس پھیلے گا۔۔۔ کی رٹ کیوں لگائی گئی؟ وائرس کے روک تھام کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہو؟ عوام کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جو بچ سکتا ہے وہ بچ جائے ورنہ ہم سے کوئی نہ پوچھے کہ کیا ہوا، کیوں ہوا؟ ذمہ داری عوام کی ہے، حکمران کی نہیں۔
پزل کے اس گیم میں مربع شکل ڈبیا کو گھما کر وہاں لے آیا گیا ہے جہاں عوام نہ عدلیہ کے حضور درخواست دے سکتے ہیں نہ فوج سے پوچھ سکتے ہیں اور نہ ہی پارلیمان کو ذمہ دار ٹھرا سکتے ہیں۔ جو لوگ سوچ کر خوش ہیں کہ سب ان کے قابو میں ہیں، میڈیا سے لے کر ہر ادارہ ’شیرو‘ بن چکا ہے۔
اُن کے لیے عرض ہے کہ عوام کو بے بس مت جانیں۔ بھوکے، بے بس اور اب مرتے عوام نے اگر کسی بھی وقت گریبان میں ہاتھ ڈالا تو ’اگر مگر‘ کی پالیسی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ براہ مہربانی عوام کو ’شیرو‘ نہ سمجھا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر