نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ، سیاسی درجہ حرارت اور ایک تصویر۔۔۔ حیدر جاوید سید

ایک دو درجن نہیں سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، فی الوقت تو یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سیاسی حالات کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل سابق وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جاوید جبار کا شکریہ کہ انہوں نے بلوچستان کے عوامی و سیاسی حلقوں کے احتجاج پر دسویں قومی مالیاتی کمیشن میں بلوچستان کے نمائندے کے طور پر شامل کئے جانے پر معذرت کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا۔

جناب جاوید جبار صوبہ سندھ کے شہری ہیں انہیں کس نے اور کیوں بلوچستان کے نمائندے کے طور پر د سویں قومی مالیاتی کمیشن میں نامزد کیا یا کروایا اب اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں، البتہ ان کی سیاسی فہم جو بھی رہی ہو لیکن انہوں نے بروقت ایک اچھا فیصلہ کیا۔
ہمیں توقع کرنی چاہئے کہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے جن صاحب کو خیبر پختونخوا کے نمائندے کے طور پر کمیشن میں شامل کیاگیا ہے وہ بھی جاوید جبار کی پیروی کرتے ہوئے قومی مالیاتی کمیشن سے الگ ہو جائیں گے
تاکہ اس کمیشن میں دونوں صوبوں کے حقیقی نمائندے شامل کئے جائیں اور اس کیلئے درست انداز میں آئین کے آرٹیکل 160 کی پیروی کی جائے۔
دوسری اہم بات سندھ میں جعلی ڈومیسائل کے ذریعے سندھ کے شہری اور دیہی کوٹوں سے وفاقی سروسز میں شمولیت اختیار کرنے والے غیر مقامی لوگوں کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس ہیں،
یہ رپورٹس اس امر کی متقاضی ہیں کہ کم از کم پچھلے دس سال میں جن لوگوں نے اس طرح ملازمتیں حاصل کی ہیں ان کی خدمات فوری طورپر معطل کرکے وفاق اور سندھ کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے،
یہ کمیشن وفاقی اداروں میں ان غیرسندھی
(صوبہ سے باہر کے افراد) افراد کے معاملے کا جائزہ لے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ وفاقی سروسز میں صوبوں کے حصے پر دوسرے کسی بھی طور شب خون نہ مارنے پائیں۔

ثانیاً سندھ کے شہری کوٹے کی خالی نشستوں کا معاملہ بھی ازسرنو دیکھا جائے۔
پچھلے دس برسوں کے دوران دیہی اور شہری سندھ سے وفاقی سروسز میں آنیوالے اُمیدواروں کے تمام تر کوائف کی مکمل چھان بین بہت ضروری ہے’
پچھلے چند ہفتوں سے سندھی ذرائع ابلاغ سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔

اس حوالے سے کچھ الزامات بھی ہیں لیکن ان پر یہاں بحث غیرضروری ہے کیونکہ یہ کہنا کہ غیرسندھیوں (سندھ سے باہر کے لوگوں) کو وفاق یا پنجاب و خیبرپختونخوا سے کوئی سرکاری سرپرستی حاصل تھی اور ایک منصوبے کے تحت یہ سب کچھ ہوا قبل از وقت ہے،
بہرطور اس کی تحقیقات بہت ضروری ہیں اور وفاق کو بہت ذمہ داری کیساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیسے وفاقی اداروں (خفیہ ا داروں) نے ایسے افراد کیلئے این او سی دیا جو آبائی طور پر سندھ کے صوبے سے تعلق نہیں رکھتے۔
اس حوالے سے آخری بات کراچی پولیس میں لگ بھگ95فیصد غیرمقامی افراد کی ملازمتوں کا معاملہ بھی ہے،
پچھلے کچھ عرصہ سے اس پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
اصولی طور پر تو 1988ء سے کراچی کی سیاست اور نظام پر گرفت رکھنے والی ایم کیو ایم کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرے کہ اس نے اہلیان کراچی کے مفادات کا تحفظ کیوں نہ کیا۔
ہم آگے بڑھتے ہیں’ سیاست میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، ہمزاد فقیر راحموں کے بقول
”حکومت اور حزب اختلاف کے خواتین وحضرات نے آستینیں اُلٹی ہوئی ہیں’ آنکھیں لالولال (گہری سرخ) ہیں اور منہ سے آگ نکل رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کی عامیانہ سیاست کی طرف پلٹ آئے ہیں”۔
یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں حکومت اور اپوزیشن کے ستر فیصد چہرے پچھلی صدی کی آٹھویں نویں دہائیوں کی سیاست کے ہی تو تربیت یافتہ ہیں۔
پارٹیاں بدل لینے سے سیاسی خمیر تو نہیں بدلتا، صرف فریق مخالف بدل جاتا ہے۔
ہماری سیاست کا المیہ بھی یہی ہے ہم آج ایک فریق کو جابر، خائن اور عوام دشمن بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں، کل اسی کو رواں صدی کے سب سے بڑے مظلوم کے طور پر’

سیاسی ہجرتوں کی تاریخ رکھنے والوں کا المیہ بھی یہی ہے وہ آج جسے نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں کل اسے ہی سارے مسائل اور فساد کی جڑ قرار دیتے دکھائی دیں گے۔
ایک دو درجن نہیں سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، فی الوقت تو یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سیاسی حالات کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح
”لڑتے لڑتے ہو جائے گم ایک کی چونچ ایک کی دم”۔
سیاسی عمل آگے بڑھتا رہے تو اصلاح ہوتی رہتی ہے
خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب سیاسی عمل میں نقب لگا کر ”خطروں کے کھلاڑی” نامی فلم ریلیز کروائی جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سب کا حق ہے، 2018ء کے انتخابات ویسے ہی تھے جیسے 2013ء کے اس لئے سیاسی جماعتوں کو اب بھی وہی رویہ اپنانا چاہئے جو 2013ء کے انتخابی نتائج کے بعد اپنایاگیا تھا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات کی طرف بڑھنے کی بجائے اس حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں تاکہ اسے ووٹ دینے اور سر پرستی کرنے والوں دونوں کی تشفی ہو جائے۔
الزام تراشی اور عدم برداشت کا نتیجہ کبھی بھی اچھا نہیں نکلا۔ ماضی کے معاملات اور انہونیوں سے آنکھیں چرا کر جینا دانشمندی ہرگز نہیں۔
موجودہ حالات میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اسے یقینی بنانے کیلئے تمام فریقوں کو اپنے اپنے حصے کاکردار ادا کرنا چاہئے۔
اب چلتے چلتے اس تصویر بارے بات کرلیتے ہیں جس کے سامنے آنے پر پچھلے دو دنوں سے بھونچال برپا ہے۔
علاج معالجے کیلئے لندن گئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی دو پوتیوں اور ایک نواسی کے ہمراہ لندن کے کسی کافی شاپ کے باہر لگی کرسیوں پر بیٹھے کافی پی رہے ہیں کی ایک تصویر سامنے آئی۔
تصویر کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی دھماکہ ہوگیا۔
ایک غیرضروری اور عامیانہ بحث سے فضا خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ویسے کہاں لکھا ہے کہ ایک بیمار انسان اپنے بچوں کیساتھ کافی نہیں پی سکتا؟
بدقسمتی سے ہمارے یہاں 72سال میں بھی سیاسی رویوں میں پختگی نہیں آسکی۔
ہر بات سے منفی پہلو ”کشید” کرکے تنقید کے گھوڑے دوڑاتے اور دودھاری تلواریں لہراتے لوگوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ اس طرزعمل سے سیاسی عمل کی کیا خدمت ہوسکتی ہے۔

About The Author