یہ دیوانے کا خواب نہیں‘ درخت اربوں کی تعداد میں لگ سکتے ہیں۔ ملک کو دوبارہ سبز چھاتہ نصیب ہو سکتا ہے۔ کھلے میدان‘ بنجر زمینیں‘ سب باغوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین پر لوگوں کے قبضے چھڑوا کر جنگلات لگائے جا سکتے ہیں۔ بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے‘ اس دور میں بھی ملک کا کوئی ضلع ایسا نہیں‘ جہاں مفاد پرستوں نے جنگلات کی زمینوں پہ قبضے نہ جما رکھے ہوں۔ یہ حکمران اور ان کے پیش رو خاموش کیوں رہے؟ سرکاری اور نجی‘ نئے رہائشی منصوبوں میں قانون کے تحت سبز پٹیاں اور عوام کے لئے پارکس کی خاطر زمین کیوں مختص نہیں ہوتی؟ ہمارے حکمرانوں میں سے کون سا سیاسی گھرانہ ہے‘ جس نے لندن میں رہائش نہ رکھی ہو‘ یا کم از کم کئی بار وہاں سیر و تفریح کے لئے نہ گیا ہو؟
لندن میں فقط عجائب گھر‘ زیرِ زمین آمد ورفت کے لئے ٹرینوں کا جال اور مشہورِ زمانہ ہائیڈ پارک ہی نہیں‘ ہر علاقے میں بہت بڑے بڑے پارکس‘ صدیوں پُرانے باغات ساری دنیا کی آبادی کے لئے باعثِ تفریح و مسرت ہیں۔
یہ دنیا کا خاصا پُرانا شہر ہے۔ اس کے کل رقبے کا ساٹھ فیصد آج بھی سرسبز باغوں اور پارکوں کی صورت میں ہے۔ ہر طرف‘ ہر گلی اور ہر علاقے میں گھروں کے سامنے چھوٹے ہوں یا بڑے‘ درخت نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اتنے لمبے چوڑے اور چھتنار ہیں کہ سب عمارتیں ان کے سایے میں بنائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
ہماری ثقافتی روایت باغوں کے حوالے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے مختلف نہیں بلکہ ان سے بھی کہیں بہتر اور شاندار ہے۔ مغلوں کے عہدِ حکومت پہ ہم ویسے تو فخر کرتے ہوئے تھکتے نہیں‘ لیکن ذرا غور کریں‘ باغوں کا جو ورثہ انہوں نے برصغیر میں چھوڑا‘ کہاں ایسی کوئی مثال مل سکتی ہے؟
سنا ہے سری نگر کا شالیمار باغ اپنی مثال آپ ہے۔ ہم جیسے عام پاکستانیوں کو وادیٔ کشمیر کی زیارت بھی ممنوع ہے‘ مگر جو خاص پاکستانی بھارت کی خصوصی رعایت سے وہاں جا چکے ہیں‘ وہ گواہی دے سکتے ہیں۔ بات تو گھر سے شروع کرنا چاہئے تھی۔ لاہور کا شالامار باغ ہو‘ شاہی مسجد‘ شاہی قلعہ‘ مقبرہ جہانگیر‘ نور جہاں کا مقبرہ‘ حضوری باغ‘ اور بہت کچھ‘ بندہ بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ ہمارے انگریز حکمرانوں نے مقامی لوگوں کو تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا اور ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک بھی روا رکھا‘ مگر خود وہ سلیقے سے رہتے تھے۔
پنجاب کا کون سا ضلع ہے‘ جہاں کمپنی باغ نہ ہو۔ اس وقت کی ضلعی انتظامیہ کے لئے وسیع و عریض بنگلے ہوتے تھے۔ ریلوے اور نہروں کے نظام سے منسلک انگریز بھی بنگلوں اور باغوں میں رہتے تھے۔ آزاد پاکستان کے حکمران تہتر برس گزرنے کے بعد بھی خود کو انگریزوں کا جائز جانشین سمجھ کر وہی طرزِ زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
آج کمپنی باغوں پر مکمل نہیں تو جزوی قبضے ہیں۔ کون یہ قبضے چھڑوائے گا اور کون مزید باغوں کو ہمارے پھیلتے ہوئے شہروں کی زینت بنائے گا۔ خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ہم بادامی باغ کے بس کے اڈے سے مختلف اضلاع کو سفر کرتے تھے۔ مغلوں کے دور میں‘ انگریزی راج اور پاکستان بننے کے بعد بھی بادامی باغ موجود تھا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہوسِ زر اور بد حکمرانی نہ جانے کتنے جنگلات‘ سرکاری باغوں اور سرسبز جگہوں کو نگل چکی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے دیہات‘ قصبات اور تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں کو باغوں اور عوامی پارکس سے مزین کریں۔ ہم مختلف جگہوں پر جنگلات لگا کر ماحول کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ نیو یارک میں مین ہٹن کے عین وسط میں سینٹرل پارک ہے۔
ایسے خوبصورت‘ وسیع‘ قدیم اور با سلیقہ پارکس دنیا میں کم ہی دیکھے ہیں۔ صدیوں پہلے منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ شہر بڑا ہو گا‘ پھیلے گا تو انسان سمیت ہر ذی روح کو تازہ ہوا کی ضرورت ہو گی۔ ہمارا اور دنیا کا ماحول اگر خراب ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ درخت‘ کھیت اور سبزہ ختم کر کے ان کی جگہ بلند و بالا عمارتوں‘ گھروں اور شاہراہوں کی تعمیر ہے۔ مانتا ہوں کہ یہ سب ضروری ہیں‘ مگر اس سے کہیں زیادہ صاف ہوا‘ سرسبز ماحول اور عوام کی تفریح کے لئے پارکس کی منصوبہ بندی اہم ہے۔
پتہ نہیں ہم کیوں نہیں سیکھتے۔ ہم تو بے بس ٹھہرے‘ لیکن اگر قلم اور زبان کی سہولت ہے تو آواز اٹھانا لازم ہے۔ یہ خاکسار ہی نہیں‘ اس صفحے پر میرے ہم عصر مبصرین مجھ سے زیادہ مؤثر مضامین تواتر سے لکھ رہے ہیں۔ کیا کریں ساری زندگی خواب دیکھتے اور سپنے بُنتے گزار دی‘ اب دل چاہتا ہے کچھ دیکھ لیں‘ کچھ کہہ لیں کہ شاید کوئی پڑھ رہا ہو‘ سن رہا ہو‘ کوئی تڑپ پیدا ہو‘ کوئی کچھ کر گزرے۔ چند ہفتے پہلے انقلابِ ایران اور اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں اپنی کلاس کو لیکچر دینے کیلئے پڑھا اور ہم نے اس پر کچھ دن بحث جاری رکھی۔ دل خوش ہو گیا یہ پڑھ کر کہ انقلاب کے دس سال بعد اکبر ہاشمی رفسنجانی صدر بنے تو وہ معاشرے میں گھٹن اور انتہا پسندی کو ختم کرکے شخصی آزادیوں کے لئے بہتر ماحول پیدا کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے غلام حسین کرباسچی کو منتخب کیا۔
صرف پانچ برسوں میں نئے میئر نے تہران کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ اس مختصر عرصے میں چھ سو نئے پارکس تعمیر کئے‘ اور زیادہ تر شہر کے جنوب میں بسنے والے غریب لوگوں کے لئے۔ تیرہ ہزار خالی پلاٹوں کو شہر کے اندر تفریحی مراکز میں تبدیل کیا اور شہر کے ارد گرد ہزاروں ایکڑ زمین پر جنگلات لگوائے۔ اس کے علاوہ ایک سو اڑتیس ثقافتی مراکز اور سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرا دیئے۔
لیکن افسوس کہ ان کے خلاف فتوے دئیے جانے لگے اور بیچارے کرباسچی صاحب کو غیر اسلامی اقدامات کی پاداش میں جیل بھجوا دیا گیا‘ لیکن جو کچھ وہ بنا گئے‘ وہ آج بھی قائم ہے۔ ہماری ایک نہیں‘ کئی دکھ بھری کہانیاں ہیں۔ یہ کیسے ہوا کہ مارگلہ نیشنل پارک میں ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ گھروں اور نئی بستیوں کو کھلی چھٹی رہی۔ کہاں تھے ہمارے حکمران؟ کوئی تو جواب دے۔ ایک پسندیدہ ریستوران کے مالک نے وبا کی گہری خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے۔ جنابِ عالی یہ نا قابلِ معافی جرم ہے۔ کس کس کہانی کا ذکر کریں؟
اگر ہم اپنے آپ کو‘ معاشرے اور ملک و ملت کو مثبت انداز میں تبدیل کرنا چاہیں تو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ تاریخ افراد اور قوم کی تقدیر خود بدلنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
رکاوٹ ہمارے اندر اپنے آپ پر یقین نہ رکھنے اور منفی سوچ کی صورت میں رہتی ہے۔ انسان ارادہ باندھ لے‘ حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرے اور میسر وسائل کو بروئے کار لائے تو عام تبدیلی نہیں‘ انقلاب برپا ہو سکتے ہیں۔ بار بار دیکھا اور پڑھا کہ معاشرے جمود کا شکار ہوتے ہیں‘ کچھ آگے نہیں بڑھ پا رہا ہوتا‘ بڑے بڑے قائدین سیاسی افق پر برق رفتاری سے نمودار ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ اندھیروں میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ لوگ اور تاریخ صرف ان کو یاد رکھتے ہیں جو کچھ کر گزرتے ہیں‘ جنہیں خود سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ عام لوگوں کے ساتھ مخلص‘ ملک اور معاشرے کو اگلی منزلوں تک لے جانے کے خواب آنکھوں میں سجائے اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو روشن ستاروں کی طرح معاشرے کی تاریکیوں میں اپنے مقام میں جگمگاتے رہتے ہیں۔
ہم میں سے جن کو کامیاب لوگوں کی سرگزشت‘ کارناموں یا ان مختلف معاشروں‘ جو چند دہائیوں میں کیا سے کیا ہو گئے‘ میں دلچسپی ہے‘ وہ خوب جانتے ہیں کہ منصوبہ بندی‘ عمل کاری‘ واضح حکمتِ عملی اور خدمت کا جذبہ سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ٹیلی وژن پروگرام ہر موضوع پر ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے‘ ایک پروگرام میں ایک چینی النسل امریکی تیزی سے کھانا پکانے کا عملی مظاہرہ کرتا‘ جھٹ پٹ میز پر سجا دیتا اور پھر کہتا: جان لیو یہ کھانا بنا سکتا ہے تو آپ اس سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اگر ترکی‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ