نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پولیس کا رویہ ۔۔۔ احمد علی کورار

یہ سن کر وہ حواس باختہ ہے کہ پہلا شخص ہے جو خود تھانے چلنے کا کہہ رہا ہے۔آخر میں انہوں نے جو چیزیں ساتھ تھیں کہا کہ یہاں سے کچھ دے دیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ جس میں ایک خاتون جو خود کو کرنل کی بیوی بتا رہی ہے ایک پولیس والے کے ساتھ نازیبا طریقے سے محو کلام ہے اور یہ خاتون آپے سے باہر ہوگئی۔ ایک بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پولیس اس کے سامنے ہیچ ہو گئی ۔خاتون جانے پہ بضد اور پولیس والا اسے روکنے پہ بضد۔گلخپ اس قدر بڑھ گئی کہ گتھی سلجھ ہی نہ پائی۔اس میں کوئی مغالطہ نہیں غلطی سراسر اس خاتون کی تھی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے درپے تھی یا قانون اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پہ خاتون کی ایسی درگت ہوئی جس سے جتنا ہو سکا دشنام طرازی اور لغو گوئی کا مظاہرہ کرتا رہا اور پولیس کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی جانے لگی اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔
خاتون کے اس نازیبا رویے پہ نا چاہتے ہوۓ میں نے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول کہہ دیے کیونکہ اس فورس میں بھلے انسان بھی ہیں۔
اصل مدعا طرازی کرنل کی بیوی کا پولیس کے ساتھ نا زیبا رویہ نہیں بلکہ یہاں خامہ فرسائی کا اصل مقصد پولیس کا عام عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے اس پر ہے۔
عمر کوئی انیس بیس کے قریب تھی کسی رشتہ دار کے ساتھ جو میرا ہم عمر تھا سندھ کے کسی شہر کسی کام سے جانا ہوا
دن بھر مصروف رہنے کے بعد شام کو جب واپسی کا ارادہ کیا سڑک کنارے کھڑے دو پولیس والوں نے اشارے سے بلایا علیک سلیک کے بعد انہوں نے بے تکے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور بار بار کہتے رہے اس سڑک پر گھومنا منع ہے اس بے اصولی بات پر میں نے کہا پھر سڑک کس لیے بنائی گئی ہے۔

اس پر وہ مزید سوختہ ہو گئے اور ہمارے ساتھ جو گھریلو سامان تھا اسے بار بار کھنگالنے لگے حیرت تب ہوئی جب انہوں نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ آپ جیل سے فرار ہو کر آرہے ہیں ۔پھر میں نے کہا سر ہم کس کیس میں جیل میں قید تھے اس بات پر وہ ہڑ بڑاۓ۔ جب کچھ بن نہ پایا۔انہوں نے براہ راست پیسوں کا مطالبہ کر دیا ہم انھیں بار بار کہتے رہے کہ کس چیز کے پیسے؟ہم نے یقین دہانی کرائی کہ ہم طالب علم ہیں کسی کام سے اس شہر آنا ہوا لیکن ان کے کان پہ جوں ہی نہیں رینگتی۔
ہمیں انہوں نے دھمکانا شروع کر دیا کہ ابھی ہم موبائل بلاتے ہیں آپ لوگوں کو تھانے لے چلتے ہیں۔سورج غروب ہونے کو تھا کافی دیر تک ہم ان کے ساتھ خوامخواه کی تکرار میں الجھے ہوۓ تھے۔
پھر میں نے بھی ٹھان لی کہ ہم لے چلیں تھانے ہمارا جو قصور ہے وہ SHO صاحب کو گوش گزار کریں گے اور ویسے بھی اب سورج غروب ہونے کو ہے ہمیں دیر ہو چکی ہے۔

یہ سن کر وہ حواس باختہ ہے کہ پہلا شخص ہے جو خود تھانے چلنے کا کہہ رہا ہے۔آخر میں انہوں نے جو چیزیں ساتھ تھیں کہا کہ یہاں سے کچھ دے دیں۔
میں نے کہا حد ہوتی ہے سر۔گھریلو سامان ہم آپ کو دے دیں۔۔ان کی تمام تر کوششیں جب بے سود رہی انہوں نے ہمیں مجبوراً جانے دیا لیکن کافی دیر ہو چکی تھی اور بڑی مشکل سے آخری گاڑی تک پہنچ پاۓ اور اپنے شہر کی راہ لیا۔
پہلے میں سنتا تھا کہ پولیس بلاوجہ عام عوام کو تنگ کرتی ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ لوگ باتیں بناتے ہیں ایسا نہیں ہے لیکن جب ذاتی تجربے سے گزرا تو شک یقین میں بدل گیا۔
یہ واقعہ بتانے کا ہر گز مطلب نہیں کہ میں پولیس کو بدنام کر رہا ہوں بلکہ پولیس کا وہ رویہ جو عام عوام کے ساتھ ہوتا ہے بتانا مقصود ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے عید گاہ محلہ جیکب آباد کے مکین سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے پڑوس میں چلنے والا فحاشی کا اڈا بند کروایا جاۓ لیکن پولیس یہ بات ان سنی کر رہی ہے
تاسف یہ کہ یہ فحاشی کا اڈا سٹی پولیس تھانہ سے دو تین فرلانگ پہ واقع ہے لیکن پولیس نے جان بوجھ آنکھوں پہ پٹی اور کانوں میں روئی ڈال رکھی ہے اہل علاقہ ایک عرصہ سے اضطراب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی نہیں سنی جا رہی اور کئی علاقہ مکین یہاں سے اپنے گھر اونے پونے داموں بیچ کر نقل مکانی پہ مجبور ہو گئے کئی بار شکایات پر بھی پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اگر اہل علاقہ کی داد رسی نہیں ہوئی وہ احتجاج کو مزید سخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اعلی حکام سے گزارش ہے کہ اہل علاقہ کی دادرسی کی جاۓ اور اس برائی کا قلع قمع کرنے میں ان کا ساتھ دیا جاۓ۔
ایسے نہیں کل اہل علاقے قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں۔
پولیس نے سماج میں جو اپنا امیج بنایا  ہے وہ اب عوام کرنل کی بیوی کے رویے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ میں اس خاتون کی حمایت کر رہا ہوں جو بدمست ہو کر قانون توڑتی پھرے۔انھوں نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط ہے۔

لیکن یہ بھی تو غلط ہے پرانی موٹر سائیکل پر سوار غریب جوڑے کو جو اپنی بیٹی کا علاج کرانے شہر جاتے ہیں   بلاوجہ اسے گھنٹوں ٹھہرانا تنگ کرنا جب کچھ بن نہ پایا تو غریب شخص کو بیگم کے سامنے گالم گلوچ کرنا۔کیا پولیس کا یہ رویہ قانونی ہے۔

بلاوجہ کسی  ڈرائیور کو  اپنے چھوٹے بیٹے کے سامنے اینٹوں سے زدوکوب کرنا ڈرائیور  بیچارہ خون سے لت پت ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بد مستی کی انتہا نہیں ہے۔یہ سب کچھ کس قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے۔کیا یہ غلط نہیں ہے؟

بھری وین میں کسی پیرسن کو چور کہہ کر اتارنا جو بیچارہ عمر کے اس حصے میں جو بمشکل چل پھر سکتا ہے کیا یہ غلط نہیں ہے۔
اگر پولیس کا یہی رویہ رہا تو عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
احمد علی کورار

About The Author