ہم بہت عجیب قسمت لیکر پیدا ہوئے ہیں
(یہاں ہم سے مراد کثیرالقومی ملک پاکستان میں آباد قومیتیں ہیں)۔
ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں سوائے سرزمین کے۔
اس سرزمین کی تہذیب وثقافت‘ تاریخ اور مقامی ہیروز سے تو ہم یوں بدکتے ہیں جیسے ایمان بھرشٹ ہوجائے گا۔
بٹوارے (تقسیم ہند) کے بعد کی دوتین نسلوں کو ایک ایسا خبط عظمت کھا گیا جس سے ہمارا کوئی تعلق تھا نہ ہے، رہی سہی کسر الیاس سیتا پوری‘ نسیم حجازی اور ان کے ہم خیالوں نے پوری کر دی۔
انہوں نے رومانی ناولوں کو تاریخ کا تڑکہ لگا کر پیش کیا، اس پر ہماری تین نسلیں جھومتی رہیں۔ کچھ مست والست اب بھی موجود ہیں
جو ان کہانیوں کو حقیقی تاریخ کے طور پر دیکھتے سمجھتے ہیں۔
اب صورت یہ ہے کہ مذاہب وعقیدے ہوں‘ تاریخ یا مروجہ سیاست ہر طرف شخصیت پرستی کا دور دورہ ہے۔
کنٹرولڈ میڈیا سے ریاستی بیانئے کی ترویج نے ایک نئی قسم کی "فصل” تیار کی، وہ کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں۔
سوشل میڈیا نے البتہ بتوں کو پاش پاش کر ڈالا۔ یہ بجا ہے کہ اس کا قدرے نادرست استعمال بھی ہوتا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اس نے تحقیق وفہم کے نئے دروازے کھول دئیے۔
پلک جھپکتے ہی ایک ہی موضوع پر مختلف آراء آپ کے موبائل‘ لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر اور ٹیب لیٹ کی سکرین پر ہوتی ہیں۔
کج بحثی یہاں بھی ہے پھر بھی مکالمے کا دروازہ کھلا ہے، سوشل میڈیا کا ایک فائدہ ہوا ہے وہ یہ کہ اب کوئی جوتوں سمیت تاریخ یا آپ کی آنکھوں میں گھسنے کی کوشش نہیں کرسکتا۔
تمہید طویل ہوگئی عرض یہ کرنا تھا کہ ان دنوں بنی گالہ شریف سے چیچو کی ملیا تک ترکی کے ڈرامے ”ارطغرل“ کا شور ہے۔
جناب وزیراعظم نے تو اسے شاندار اسلامی تاریخ وتہذیب کا ترجمان بتایا۔ یہ بھی کہا میں چاہتا ہوں کہ نئی نسل یہ ڈرامہ دیکھے تاکہ اپنی تاریخ سے آگاہ ہو۔
دو دن ادھر ان کے معاون خاص سینیٹر فیصل جاوید کہہ رہے تھے ہماری خواہش ہے کہ سرکاری ٹی وی روزانہ کی بنیاد پر یہ ڈرامہ دکھائے۔
ہم جس بنیادی سوال کو پچھلے 72برسوں سے نظرانداز کرتے چلے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ ہے کیا؟
اور کیا متحدہ ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے افغانوں‘ سیدوں‘ ترکوں‘ مغلوں اور خاندان غلاماں کی تاریخ ہماری تاریخ ہے یا تاریخ کا تعلق آبادی‘ خطے‘ رسم ورواج وغیرہ سے ہوتا ہے۔
ہم سے طالب علموں نے جب بھی اس موضوع پر سوال اُٹھائے اور معروضات عرض کیں ایک بڑے طبقے نے کہا تاریخ کا مقامیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انہوں نے تاریخ کے نام پر ہمیں ان خطوں سے جوڑنے اور واقعات کا حصہ دار بنانے کی کوشش کی جن سے ہمارا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا
ساعت بھر کیلئے رکئے‘
یاد آیا تیسرے مارشل لاء کے دور میں پھانسی گھاٹ پر جھولنے والے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں بھی آنے کے بعد ایک ہسٹری کمیشن بنایا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے جن اداروں کو نگل لیا ان میں یہ تاریخ کمیشن بھی شامل تھا۔
بھٹو صاحب کا تاریخ کمیشن بنانے کا مقصد حقیقی معنوں میں تاریخ مرتب کروانا تھا جو واقعتاً اس خطے اور آباد لوگوں کی تاریخ ہو۔
یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو اس ہسٹری کمیشن کیخلاف ہمارے صالحین نے ملک گیر مہم چلائی تھی، رونا وہی تھا کہ بھٹو ایک ایسی تاریخ لکھوانا چاہتے ہیں جو نئی نسل کو مسلمانان ہند کے شاندار ماضی اور اسلامی تعلیمات سے کاٹ دے گی۔
شاندار ماضی اور اسلامی تاریخ دونوں ایسے فکری اور تاریخی مغالطے ہیں جن کی ترویج سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی۔
تیسرے مارشل لاء کے دوران سرکاری ٹی وی نے تاریخی ڈراموں کے نام پر جو چورن فروخت کیا بالکل ویسا ہی چورن ان دنوں ”ارطغرل“ نامی ڈرامے کے ذریعے فروخت کیا جا رہا ہے۔
صاف سیدھے لفظوں میں عرض کروں یہ ترک تاریخ کا حصہ تو ہے مگر متحدہ یا تقسیم شدہ ہندوستان کے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
کیا عثمانی خلافت نما بادشاہت سے قبل عباسی خلافت موجود نہ تھی اور وہ عباسی تو تھے بھی حضرت رسول اکرمؐ کے چچا جناب عباس بن عبدالمطلبؓ کی اولاد میں سے بھی
تاریخ بالکل مختلف چیز ہے، تقدس‘ رشتہ داریوں اطاعت سے اس کا لینا دینا نہیں ہوتا۔ سو اب سوال یہی ہے کہ ”ارطغرل“ نامی ڈرامے کو لیکر ہمارے یہاں تاریخ کے حوالے سے جس بیکار بحث کے دروازے کھولے جا رہے ہیں اس کا ہماری نئی نسل کو کیا فائدہ ہوگا؟
ہم نے کبھی ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آخر کیسے ہم ایک ہی وقت میں جارح اور مقتول دونوں کو اپنا ہیرو سمجھ سکتے ہیں؟
قبل ازیں بھی ان سطور میں عرض کر چکا، عثمانی بادشاہت عباسی خلافت کے کھنڈرات پر تعمیر ہوئی۔
اسی طرح برصغیر میں بابر نے جس مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی اس سے قبل بھی یہاں مسلمان حکمران موجود تھے۔
حکمرانوں کی تاریخ کا عوامی تاریخ میں بس کرداروں کی تبدیلی تک کا حصہ ہوتا ہے۔
جناب عمران خان واقعتاً اس ملک کی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کروانا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے تاریخ کمیشن قائم کریں۔
کمیشن کے قیام اور کام کو دستوری تحفظ حاصل ہو اور وہ تاریخ مرتب کرے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ تاریخ کا مذہب وعقیدہ نہیں ہوتا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں‘ بھارت اور پاکستان میں تاریخ سے ”بلاتکار“ ہو رہا ہے۔
بھارت میں تاریخ سازی کے عمل سے اس کا مسلم حصہ نظرانداز کیا جا رہا ہے تو ہمارے یہاں کبھی عربوں‘ کبھی افغانوں‘ کبھی ایرانیوں اور اب ترکوں کی تاریخ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ 72سالوں سے جاری اس کھلواڑ کو اب بند ہونا چاہئے۔
انتقال آبادی کی پوری انسانی تاریخ میں ہوئی دوچار نہیں سینکڑوں مثالیں اور زندہ حقیقتیں موجود ہیں،
چند ہزار یا چند لاکھ مسلم خاندان یقینا باہر سے متحدہ ہندوستان آکر آباد ہوئے مگر اکثریت کا تعلق بہرطور اسی سرزمین سے ہے یہ بالکل نادرست بلکہ ظالمانہ اقدام ہوگا کہ اقلیت کے پرکھوں کی تاریخ کو اکثریت کی تاریخ بنا کر پیش کیا جائے۔
ارطغرل ایک ترک ڈرامہ ہے اس میں تاریخ کیساتھ کتنا انصاف ہوا اور ڈرامائی مرچ مصالحہ کتنا ہے اسے سمجھنے کیلئے سلطنت عثمانیہ اور قبل از یا بعد کے ادوار کی ترک تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
ہمیں بہرطور اسے ایک اچھی پروڈکشن کے طور پر ہی لینا چاہئے ناکہ اپنی تاریخ کے پرجوش حصہ کے طور پر۔
ہماری تاریخ کے سوتے اسی سرزمین سے پھوٹتے ہیں جس پر ہم آباد ہیں۔ مناسب یہ ہوگا کہ لوگوں کو ان کے اصل سے نہ کاٹیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر