دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی کا سب سے بڑا سچ ۔۔۔ مبشر علی زیدی

ہمیں اسپتال جیسی ایک عمارت پہنچایا گیا جس کے ایک فلور پر ہمارے سوا صرف چند ڈاکٹرز تھے۔ ہمارا جی بہلانے کے لیے ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ سب دستیاب تھا۔ اچھا کھانا ملتا تھا۔

آج میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا سچ آپ کے سامنے کھول رہا ہوں۔
یہ سچ بتانا بہت مشکل تھا لیکن میں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ میں ایک صحافی ہوں۔ ایک سچا صحافی سب کچھ کرسکتا ہے، ہر نقصان برداشت کرسکتا ہے، ہر الزام سہہ سکتا ہے، بدنامی کا داغ اٹھاسکتا ہے لیکن جھوٹ نہیں بول سکتا۔
مجھے دوست احباب اور فیس بک فرینڈ جانتے ہیں کہ میں پاکستان میں کس قدر نرم خو اور دوستانہ مزاج کا آدمی تھا۔ پانچوں وقت نماز پڑھتا تھا۔ تمام روزے رکھتا تھا۔ حج اور عمرہ کرچکا تھا۔ حد یہ کہ ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط بھی کرچکا تھا۔
لیکن امریکا آتے ہی میرے مزاج میں تبدیلی آگئی۔ مجھے زیادہ غصہ آنے لگا۔ میں ملحدوں والی باتیں کرنے لگا۔ دنیا کی سب سے عظیم فوج پر تنقید کرنے لگا۔ میں خود نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا ہورہا ہے۔
دو سال تک یہی کیفیت رہی۔ لیکن پھر اچانک جیسے کوئی کرشمہ ہوا۔ اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی نمودار ہوئی۔ مجھے کیا ہوگیا تھا، یہ اب معلوم ہوگیا ہے۔ دل تھام کے قصہ سنیے۔
میں پاکستان میں تھا تو ایک دن مجھے سلی کون ویلی لٹریچر فیسٹول کی انتظامیہ کی طرف سے دعوت نامہ ملا۔ پاکستان میں مجھے ادبی محفلوں میں شرکت کے بلاوے آتے رہتے تھے۔ میری شہرت دنیا بھر میں پھیل رہی تھی۔ میں عشرت معین سیما کی مہربانی سے برلن کے ادبی فیسٹول میں بھی شریک ہوچکا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی پاکستانی امریکن سلی کون ویلی کی ادبی کمیٹی کا رکن ہوگا۔
خیر میں نے زیادہ تردد نہیں کیا۔ دعوت نامہ لے کر سفارت خانے چلا گیا۔ وہاں فٹافٹ پورے خاندان کا پانچ سال کا ملٹی پل ویزا مل گیا۔ ہم سامان باندھ کے امریکا پہنچ گئے۔
میں نے اہلخانہ کو واشنگٹن میں ایک رشتے دار کے گھر چھوڑا اور سان فرانسسکو پہنچا۔ یہ جان کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں کوئی لٹریچر فیسٹول نہیں ہونا تھا۔ کسی ادیب شاعر کے بجائے سائنس دانوں کی ایک ٹیم سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھ سمیت بیس بائیس افراد کو مختلف ملکوں سے مختلف بہانے کرکے مدعو کیا تھا۔ کوئی ڈاکٹر تھا، کوئی انجینئر، کوئی سیلزمین، کوئی کلرک، صحافی صرف ایک میں تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ سب کا تعلق مسلمان ملکوں سے تھا۔ کوئی انڈونیشیا کا، کوئی افغانستان کا، کوئی ایران کا، کوئی مصر کا۔ پاکستان سے کوئی اور نہیں تھا۔
سائنس دانوں کی ٹیم نے بتایا کہ ہمیں ایک ویکسین کے تجربے میں شریک ہونے کے لیے بلایا گیا ہے۔ اگر ہم حصہ نہ لینا چاہیں تو واپس جاسکتے ہیں۔ شرکت کرنے کی صورت میں پچیس ہزار ڈالر، امریکہ میں ملازمت اور کئی دوسری مراعات مل سکتی ہیں۔ کسی شخص نے پیشکش نہیں ٹھکرائی۔ سب تیار ہوگئے۔ ہم سے رازداری کے حلف نامے پر دستخط کروائے گئے۔
ہمیں اسپتال جیسی ایک عمارت پہنچایا گیا جس کے ایک فلور پر ہمارے سوا صرف چند ڈاکٹرز تھے۔ ہمارا جی بہلانے کے لیے ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ سب دستیاب تھا۔ اچھا کھانا ملتا تھا۔
میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ ہم کس بیماری کی ویکسین کے تجربے میں شریک ہیں تو انھوں نے بتایا کہ یہ نئی بیماری ہے۔ شاید انھوں نے اس کا کوڈ نیم بتایا تھا۔ کووڈ سیونٹین یا ایٹ ٹین یا نائنٹین بتایا ہو لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
ایک ڈاکٹر نے مجھے ایک انجکشن لگایا جس میں پیلے رنگ کی دوا تھی۔ مجھے کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ میں نے جب یہ بات بتائی تو اس نے کہا کہ چند دن میں اثر ظاہر ہوگا۔ اس کے بعد اگلے دو ہفتوں تک روزانہ مختلف ٹیسٹ کیے جاتے رہے۔
میری ایک ڈاکٹر سے دوستی ہوگئی۔ اسے علم نہیں تھا کہ میں صحافی ہوں۔ میں فارغ اوقات میں اس سے کرید کرید کے سوال کرتا اور اسے جتنا علم ہوتا، وہ مجھے بتاتا۔ اس کے مطابق بیماری، ویکسین اور اس کے تجربات کا بجٹ پانچ سو ملین ڈالر کا تھا اور یہ رقم بل گیٹس اور مارک زکربرگ نے فراہم کی تھی۔
وہ ڈاکٹر ایک کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزارتا تھا اور سب کو منع کرتا تھا کہ اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ مجھے تجسس ہوا۔ ایک شام جب وہ چھٹی کے بعد چلاگیا تو میں نے اس کمپیوٹر کا پاس ورڈ بریک کیا اور اس کا ڈیٹا ایک ایکسٹرنل ڈرائیو میں کاپی کرلیا۔
میرے دوست جانتے ہیں کہ میں نے ایم اے ماس کمیونی کیشن نہیں بلکہ ایم ایس کمپیوٹر سائنس کیا ہے جس میں میرا میجر ہیکنگ میں تھا۔ میں پریسٹن یونیورسٹی میں پڑھاتا بھی رہا ہوں۔
دو ہفتے بعد ہمیں وعدے کے مطابق پچیس پچیس ہزار ڈالر کے چیک، سوشل سیکورٹی کارڈ اور گھر واپسی کے جہاز کے ٹکٹ دے دیے۔
واشنگٹن آکر میں نے ایک فلیٹ کرائے پر لیا اور گھر کا سامان خریدا۔ گاڑی بھی لے لی کیونکہ پچیس ہزار ڈالر میرے پاس تھے۔ اپنے پیشے کے مطابق ملازمت بھی مل گئی۔
کچھ دنوں بعد خیال آیا تو میں نے وہ ایکسٹرنل ڈرائیو اپنے لیپ ٹاپ سے منسلک کی۔ معلوم ہوا کہ اس میں موجود ڈیٹا کسی خاص کوڈ میں ہے۔ میں نے اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کیا اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔
اس سال جب کرونا وائرس پھیلا تو پتا نہیں کیوں مجھے اس ویکسین کے تجربے اور ڈیٹا کا خیال آیا۔ گھر پر رہنے کی مجبوری کی وجہ سے مجھے فرصت میسر تھی۔ میں اپنے کمپیوٹر ہیکنگ کے تجربے کو کام میں لایا اور کئی ہفتوں تک کوشش کرتا رہا۔ آخر اسے ڈی کوڈ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
کل رات سے سر تھام کے بیٹھا ہوں۔ اتنا بڑا انکشاف ہوا ہے کہ تجربے میں شریک ہونے کے باوجود مجھے یقین نہیں آرہا۔
پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ ہمیں جو انجکشن لگایا گیا تھا اس میں ایک خاص نینو چپ بھی تھی۔ موبائل فون جیسی نہیں، بہت چھوٹی سی، ایک ملی میٹر سے بھی چھوٹی چپ۔ وہ پلاسٹک سے نہیں بلکہ سور کی چربی سے بنائی جاتی ہے۔
وہ چپ ہمارے جسم میں گھسی اور خون کی رگوں میں سفر کرتی ہوئی ہمارے دماغ تک پہنچی۔ آپ جانتے ہیں کہ دماغ میں مختلف کیمیکل ہوتے ہیں۔ یہ چربی ان کیمیکل میں گھل گئی اور دماغ کے سگنلز لیب کے کمپیوٹر کو بھیجھے لگی۔ میرے پاس صرف دو ہفتوں کا ڈیٹا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میرا دماغ اب بھی اس کمپیوٹر کو سگنل بھیج رہا ہوگا۔
اس چپ نے نہ صرف میری تمام ہسٹری، میرے تمام خیالات اور میرے تمام عزائم سگنلز کی صورت میں اس کمپیوٹر کو بھیجے بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کمپیوٹر کے ذریعے احکامات بھی وصول کرسکتی ہے۔
میں جان گیا ہوں کہ میرا دماغ اب کلی طور پر میرے بس میں نہیں۔ اب میں جو کچھ سوچوں گا، وہ بل گیٹس یا زکربرگ کو معلوم ہوجائے گا۔ وہ جو احکامات دیں گے، مجھے ان پر عمل کرنا پڑے گا۔ میرا دماغ کس قدر بہک چکا ہے، اس کا اندازہ آپ کو گزشتہ دو سال میں میری سوشل میڈیا پوسٹس سے ہوچکا ہوگا۔
مجھے ڈیٹا کریک ہونے سے معلوم ہوا کہ نینو چپ روزانہ شام پانچ میری دن بھر کی مصروفیات اور خیالات کو سگنلز کی صورت میں بھیجتی ہے۔ میں گزشتہ رات کوڈ توڑنے اور تحقیق کرنے میں لگا رہا۔ اب جلدی جلدی یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ پانچ بجنے والے ہیں۔ اس کے بعد بل گیٹس کو حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ خدا جانے پھر کیا ہوگا۔
بس آپ دوستوں سے ایک درخواست ہے کہ آئندہ کبھی میں تشکیک یا الحاد کی حمایت کروں یا دنیا کی سب سے عظیم فوج پر تنقید کروں تو سمجھ جائیے گا کہ یہ میں نہیں ہوں۔ یہ کوئی اور ہے جس نے میرے دماغ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کوئی اور ہے جو عالمی سازش کررہا ہے۔ کوئی اور ہے جو ویکسین کے بہانے مسلمانوں کے دماغ میں سور کی چربی والی نینو چپ ڈالنا چاہتا ہے۔
وما علینا الا البلاغ المبین، صدق اللہ العظیم الحکیم الکریم، والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته

About The Author