عرصہ ہوا میں ڈیرہ اسماعیل شھر کے شمالی علاقے پہاڑپور کے ایک دیہی علاقے میں اپنے ایک دوست کو عید ملنے گیا۔ عید کا پہلا دن تھا اور خاصی چہل پہل تھی۔
وہاں سکول کا ہیڈماسٹر ایک نیا چھیٹ کے پھلدار کپڑے کا سوٹ پہنے گھوم رہا تھا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چھیٹ کپڑے کے سوٹ صرف عورتیں اور لڑکیاں پہنتی تھیں یا پھر ہماری رضائیوں کے استر اس کپڑے سے بنتے تھے۔
میں نے دوست سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے دلچسپ قصہ سنا دیا۔کہنے لگا ہیڈماسٹر صاحب کی بوڑھی والدہ بہت سادہ مزاج ہے۔ اس نے ضد کی کہ اس دفعہ سارے بچوں کے عید کے کپڑے وہ خرید کے لائیں گی۔
چنانچہ بازار گئیں اور انہیں خوبصورت چھوٹے پھولوں والا یہ کپڑا پسند آ گیا اور پورا تھان سب کے لیے خرید لیا۔بھولی بھالی ماں کو یہ خیال نہ آیا کہ مرد یہ کپڑے نہیں پہنتے۔
جب گھر تشریف لائیں اور ہیڈماسٹر صاحب کو شاپنگ دکھائی تو وہ ماں کا اتنا تابعدار ہے کہ اس نے ماں کی شاپنگ کی خوب تعریف کی اور سوٹ درزی کے پاس سلوانے لے گیا۔
درزی نے حیران ہو کے ہیڈماسٹر صاحب سے پوچھا تو اس کو خاموش رہنے کی ہدایت کی کیونکہ اگر ماں کو غلط سوٹ خریدنے کا پتہ چلے گا تو اس کا دل دکھے گا چنانچہ وہ سوٹ سلوا کر عید کے دن پہن لیا اور عید نماز پڑھنے آ گیا۔ دوستوں نے جب پوچھا تو ان کو کہ دیا ماں کی پسند ہے میں انکار نہیں کر سکتا ایک دو گھنٹے بعد چینچ کر لونگا مگر میں ماں کو یہ کہ کر دکھی نہیں کرنا چاہتا کہ اس کا انتخاب غلط تھا۔۔
ایسے عظیم لوگ جو اپنے سٹوڈنٹس اور سوسائیٹی کے لیے ماڈل تھےاب کہاں ملتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر