عیدالفطر کا دن کتابوں،اخبارات اور سوشل میڈیا کے سہارے گزارنے کی کوشش کی مگر صبح دم سے والد گرامی کی یادوں نے حصار میں لے لیا ،یادوں کی دستک شدید ہوتی جارہی ہے ۔
اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح میرا زیادہ وقت والدین کے سایہ عافیت میں بسر نہیں ہوا( میں اپنے بچپن میں ہی ملتان سے کراچی چلاگیا تھا جہاں آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقوی رح نے پرورش کی )
اپنے بچپن کی یادیں اور ماہ و سال کی ساری کتھا ازبر ہے کبھی کبھی ان سطور میں حال دل بیان کرتا رہتا ہوں۔
بابا جانی فوج اچھے منصب پر فائز تھے پھر رخصت کر دیئے گئے البتہ65 ء اور71ء میں جنگی خدمات کے لیے انہیں ادارے نے یاد کیا تو دونوں بار ملک کے دفاع کے لیے خدمات سرانجام دیں،
فوج سے رخصت کیئے جانے کی وجہ مکرر عرض کیئے دیتا ہوں،
مولانامودودی اور مولانا عبدالستارنیازی کو ایک مذہبی تحریک کے لئے لوگوں کو اکسانے کے جرم میں سزائے موت ہوئی تو چند ساتھی افسر ان سے تبادلہ خیال کے دوران انہوں نے کہا تھا حکومت کو علماء کی بات سننا چاہیئے تھی نہ کہ سزائے موت دینا،ظاہر ہے کہ اداروں کا اپنا اندرونی نظام ہوتا ہے۔ اس نظام کی رپورٹ پرچنددیگر ساتھیوں کے ہمراہ انہیں فوج سے رخصت کردیا گیا،
ملازمت کے خاتمے پر واپس ملتان پہنچے اور پہلے مرحلہ میں ایک سیگرٹ کمپنی کے ساتھ شمع ماچس بنانے والوں سے ایجنسی لی،حسین آگاہی کے قریب سرکلر روڈ پر دفتر بنایا کام شروع کیا مگر ناتجربہ کاری اور ماہر ملازمین کی خدمات نے کاروبارکا صفایا کر دیا۔
کچھ دوستوں کے تعاون سے رحیم یارخان میں لیور برادرز میں ملازمت مل گئی جو زیادہ عرصہ نہ چل پائی ایک بار پھر کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے ابدالی موٹرز والوں سے شراکت کی نتیجہ پہلے کاروبار کا سا برآمد ہوا اس نتیجے میں ایک وجہ ان کی جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں بھر پور شرکت بھی تھی
بعد ازاں مولانا مودودی کے توسط سے سعودی عرب میں معقول ملازمت مل گئی۔
چھٹیوں پر پاکستان آتے تو زیادہ وقت اپنے دوست مولانا خان محمد ربانی مرحوم ( ربانی چچا جماعت اسلامی ضلع ملتان کے امیر رہے )کے ہمراہ جماعتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ،
سعودی تنخواہ کا ایک معقول حصہ ہر ماہ جماعت اسلامی کو چندہ بھیج دیتے تھے، جماعت اسلامی کی ترغیب پر ہی وہ1981ء میں سعودی عرب سے لوٹے اور سوویت امریکہ جنگ(اسے ہمارے ہاں افغان جہاد قرار دیا جاتا ہے) میں انجینئر گل بدین حکمت یار کے سپرد ہوئے
1990ء کی عیدالفطر والے دن خوست میں نماز عید کے کچھ دیر بعد اپنے کیمپ پر ہونے والے حملے کا دفاع کرتے ہوئے دنیا سرائے سے پڑاو اُٹھا گئے۔
عجیب سی بات ہے ایک خالص نجیب الطرفین مذہبی خانوادے میں جنم لینے کے باوجود میں مزاجاً آزاد خیال تھا اور ہوں، اس آزاد خیالی کی جتنی قیمت پچھلی نصف صدی میں چکانی پڑی اس پر اطمینان ہے
والد بزرگوار اپنی زندگی میں ہمیشہ اس بات پرشاکی رہے کہ میں جماعت اسلامی اور ہم خیالوں کا ناقد اور ان کے مخالفین کا ہمدرد ہوں، اس حوالے سے چند چھوٹے موٹے تلخ واقعات کی یادیں بھی کبھی کبھی دستک دیتی ہیں ان یادوں کو اپنی سوانح عمری”زنداں کی چیخ” میں رقم کررہا ہوں
بابا جان کے سوئم پر ان کے جماعتی دوستوں میاں طفیل محمد، پروفیسر غفور احمد، اسلم سلیمی ، چودھری رحمت الٰہی اور دیگر صاحبان نے ان کی زندگی اور سید مودودی اور جماعت کے ساتھ ان کے تعلق پر اظہار خیال کیا۔
میاں طفیل محمد نے جنرل غلام جیلانی خان(پنجاب کے ایک فوجی گورنر) اور بابا جان کے ہمراہ جنرل ضیاء الحق سے اپنی اُس ملاقات کا ذکر بھی کیا جو1981ءکے ستمبر میں اس وقت ہوئی جب میں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی سختیاں بھگت رہا تھا۔
میاں صاحب نے بتایا کہ ا س ملاقات میں جنرل ضیاء نے شدید غصہ کے عالم میں میرے بابا جان کو کہا
”میجر شاہ! میں تمہارے بیٹے کو مینار پاکستان پر لٹکا دوں گا اسے اتارنے والا کوئی نہیں ہوگا”۔
بابا نے جواب میں کہا، جنرل صاحب زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔آپ کے ادارے جو مرضی کرلیں اور جتنا مرضی میرے بیٹے پر تشدد کرلیں،وہ کبھی بھارت نہیں گیا البتہ اس کے جمہوریت پسند ہونے پر مجھے کوئی شرمندگی نہیں ، اپنے بیٹے کے نظریات سے عدم اتفاق کے باوجود میں اسے غدار اور غلط نہیں سمجھتا۔
اس پر جواب کے بعد ملاقات ختم ہوگئی۔
جنرل جیلانی نے واپسی کے سفر میں بابا جان سے کہا۔ شاہ جی، ہم چیف کو قائل کر لیتے آپ کے بیٹے کی رہائی کے لیے مگر آپ نے جو کہا اس سے چیف(جنرل ضیاء) کا موڈ خراب ہوگیا۔
جواباً والد صاحب نے کہا، انہیں ایک باپ کو یہ نہیں کہناچاہیئے تھا کہ
” تمہارے بیٹے کو مینار پاکستان پر لٹکا دوں گا اس کی لاش اتارنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا”۔
میاں طفیل محمد اپنی گفتگو تمام کر چکے تو انہوں نے میرے بڑے بھائیوں سے کہا شاہ صاحب کا بیٹا حیدرکہاں ہے۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے پروفیسرغفور احمد نے مجھے آگے بڑھاتے ہوئے کہایہ رہا وہ باغی صاحبزادہ۔
شفقت سے انہوں نے گلے لگاتے ہوئے کہا آپ کے والد صاحب آپ سے بہت محبت کرتے تھے میں نے عرض کیا ، جی مجھے معلوم ہے ،
ایک بار جماعت اسلامی کے لوگوں نے والد صاحب کے سامنے میری شکایات کے دفترکھول دیئے اتفاقاً میں ان دنوں ملتان میں ہی تھا عمر علی خان بلوچ کی معرفت مجھے حاضری کا حکم ہوا،
(کراچی اور بعد ازاں لاہور یا پشاور سے جب بھی میں ملتان جاتا تو میں ہمیشہ قیام عمر علی خان بلوچ کے گھر پر ہی کرتا تھا)
پیغام ملنے پر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے(جب غصہ میں ہوتے تو مجھے بخاری صاحب کہتے تھے) کہا بخاری صاحب عقیل صدیقی(یہ صاحب جماعت اسلامی ملتان کے امیر رہے اور مارشل لاء کے دوران فوجی عدالت میں میرے خلاف گواہ بھی تھے) اور دیگر دوست کہتے ہیں آپ کا بیٹابے دین ومشرک ہے۔
میں ان کی بات پر شرمندہ ہوتا ہوں دوستوں اور جماعت کے سامنے
میں نے عرض کیا۔
بابا جانی میرے دوست بھی مجھے کہتے ہیں، یار تمہارا خاندان اتنا رجعت پسند کیوں ہے؟۔
والد صاحب نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے جلالی انداز میں میری والدہ صاحبہ سے کہا۔
دیکھ لیجئے! آپ کا صاحبزادہ سدھرنے والا ہر گز نہیں۔
نظریات کی وجہ سے پیدا ہوئی کشیدگی کی بدولت وہ مجھ سے ناراض رہتے تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئی گرفتاری اور پھر تین سال کی سزا کے عرصہ میں انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا
یہاں تک کے جب عقیل صدیقی نے میرے خلاف فوجی عدالت میں گواہی دی تو انہوں نے صرف اتنا کہا۔
” ان لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ میرا بیٹا ہے”۔ عیدالفطر کے دن اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے پچھلی نصف صدی آنکھوں کے سامنے ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے
ان کا افضل ترین جہاد یہ تھا کہ انہوں نے اولاد کی تربیت رزق حلال سے کی اور آخری سانس تک اپنے نظریات پر استقامت کے ساتھ قائم رہے۔
1990ء کی عیدالفطر والے دن خوست میں نماز عید کے کچھ دیر بعد اپنے کیمپ پر ہونے والے حملے کا دفاع کرتے ہوئے دنیا سرائے سے پڑاو اُٹھا گئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر