عیدالفطر آنے میں دو دن رہ گئے ہیں مگر ہم نہ بازار جا کے کیچ والی تلے کی بنی کھیڑی خرید سکے نہ سفید قمیض پر ربیل کے ہار کی کڑھائی ہو سکی۔
جب ڈیرہ اسماعیل خان شھر امن اور پھلاں دا سا سہرا تھا اور کرونا وائرس بھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھا تو رمضان شریف کے ان دنوں ہم چھ سات دوست ایک قسم کے جوڑے خرید کے سلواتے ۔
گلے میں گاٶں کی لڑکیاں کشیدہ کاری کر کے ربیل کے ہار کاڑھ دیتیں۔ گرمیوں کی عید میں تلے والی کھیڑی ہماری پسندیدہ چپل تھی جو خصوصی طور پر کیچ کے گاٶں سے بنواتے۔
عید کے دن ہم نیا جوڑا اور چپلی اور گلے میں پھولوں کے ہار پہنے توپانوالہ بازار کا رخ کرتے ۔ چلتے چلتے نیے جوتوں سے میوزک جیسی آوازیں نکلتیں جو ہماری رفتار تیز کر دیتیں۔
اس قسم کی جوتوں پر بھاولپور میں ایک سرائیکی گیت بھی سنا تھا جو شاید اس طرح تھا۔؎۔جُتی تیڈی چیک مچیکاں وِچ تلے دی دھار وے۔۔۔نِکیاں نِکیاں ٹوراں ٹردے ہاں کلیجے پار وے۔۔۔
اگر راستے میں ڈھول والی کوئی پارٹی مل جاتی تو وہ لڑکے جُھمر کی دعوت دیتے اور ہم گاٶں کے لڑکے جھمر کے تو ماہر اس پارٹی میں اپنا رقص دکھا کے ان کو حیران کر دیتے۔
ڈھول والے کو خاصی ویلیں مل جاتیں۔۔ ہمارا اگلا ٹھکانہ توپانوالہ بازار کے اندر ایک کھیری۔۔دودھ فروش۔۔ کا ہوٹل تھا جہاں بہت عمدہ لسی ملتی۔ پیتل کا ایک لمبا ڈیلکس گلاس ۔لسی میں برف کوٹ کر اور ملائی شامل کر کے نوش جان کرتے تو طبیعت شگفتہ ہو جاتی۔
پھر ہم سرکس۔ بندر کا تماشہ۔جادوگروں کے کرتب دیکھنے پر وقت گزارتے اور سینما کے شو کے شروع ہونے کا انتظار کرتے۔
عید کے دن سینما پر چار شو اور ہٹ فلم لگائی جاتی۔ ہاف ٹائم میں سینما کے سامنے ہوٹل سے مشروبات کے مزے لیتے۔شو کے بعد گھر آجاتے اور آرام کرتے اور دوسرے پروگرام کے لیے تازہ دم ہوتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر