دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

واشنگٹن کا ہنگامہ (3) ۔۔۔مبشرعلی زیدی

مجبوراً میں اسی ہوٹل میں پہنچا جہاں گزشتہ شام جیمز بونڈ کو دیکھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی چاہیے

۔
"کرونا وائرس کی ویکسین والٹر وائٹ نے تیار کی ہے۔” بل گیٹس نے انکشاف کیا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔
کرونا وائرس بحران میں دنیا کے سب سے اہم آدمی بل گیٹس نے مجھے فون کرکے انٹرویو کے لیے بلایا تھا۔ میں کئی مہینوں سے اس کا انٹرویو کرنے کے لیے درخواست کررہا تھا لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اس سے ملاقات کا موقع اس بحران کے دوران ملے گا۔
بل گیٹس نے مجھے واشنگٹن کے قدیم علاقے جارج ٹاؤن بلایا تھا جہاں بہت سے ارکان کانگریس رہتے ہیں۔ ہماری ملاقات ایک ری پبلکن رکن کانگریس کے گھر پر ہوئی جو بل گیٹس کا بچپن کا دوست ہے۔
میں کئی سوال سوچ کر آیا تھا لیکن بل گیٹس نے ازخود یہ بتاکر مجھے حیران کردیا کہ کرونا وائرس کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اور اس کا فارمولا والٹر وائٹ نے تیار کیا ہے۔
"لیکن والٹر وائٹ کا تو انتقال ہوگیا تھا۔” میرے منہ سے نکلا۔
"وہ سب ڈراما تھا۔” بل گیٹس نے سنجیدگی سے کہا، "اگر اسے بریکنگ بیڈ کے پانچویں سیزن میں جھوٹ موٹ نہ مارتے تو پروڈیوسرز چھٹا اور ساتواں سیزن بنانے پر تل جاتے۔ اس کی ریٹنگ آسمان کو چھو رہی تھی۔”
"چھٹا ساتواں سیزن بنانے میں کیا قباحت تھی؟”
"قباحت یہ تھی کہ پھر پروڈیوسرز والٹر وائٹ سے میتھ بنواتے رہتے۔ اسے فرصت ہی نہ ملتی۔ کون نہیں جانتا کہ والٹر وائٹ دنیا کا ذہین ترین کیمیادان ہے۔ کیا اس کے سوا کوئی اور کرونا وائرس کی ویکسین بنا سکتا تھا؟” بل گیٹس نے کہا۔
"پھر پروڈیوسرز کو کیسے راضی کیا؟” میں نے جلدی سے پوچھا۔
بل گیٹس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ آگئی جیسی اشتیاق احمد کے خاص نمبر کے اہم موڑ پر جیرال کے چہرے پر آتی تھی۔ اس نے کہا، "پیسے سے سارے کام ہوجاتے ہیں۔ میں نے پروڈیوسرز کو ایک فلم کے پیسے دے کر کہا کہ والٹر وائٹ کا قصہ ختم کرو اور جیسی پنک مین کو ہیرو لے کر اپنی مرضی کی فلم بناؤ۔ وہ راضی ہوگئے۔”
سارا کھیل میری سمجھ میں آگیا۔ اٹھتے اٹھتے میں نے کہا، "شاید آپ جانتے ہوں کہ برطانیہ سے جیمز بونڈ، چین سے سنگ ہی، پاکیشیا سے علی عمران، الباکستان سے انسپکٹر جمشید اور ترکی سے ارطغرل غازی واشنگٹن پہنچ چکے ہیں اور ان سب کا مقصد ویکسین کا فارمولا حاصل کرنا ہے۔”
بل گیٹس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے تشویش کی جھلک دکھائی دی لیکن وہ پھر پہلی کی طرح لاپروا دکھائی دینے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر بل گیٹس کو کسی غیر ملکی جاسوس نے اغوا کرلیا تو میں اس خبر کی ہیڈلائن کیا نکالوں گا۔
ایک صحافی اس سے زیادہ بھلا کیا سوچ سکتا ہے۔
۔
بل گیٹس سے ملاقات کے بعد میں جارج ٹاؤن سے نکلا تو احساس ہوا کہ کوئی گاڑی میرا پیچھا نہیں کررہی۔ میں نے جان بوجھ کر رفتار کم رکھی تھی اور کئی بار سگنل پر دیر لگائی کہ کوئی سست سراغ رساں میرا تعاقب کررہا ہو تو اسے مشکل نہ ہو لیکن یہ جان کر میری مایوسی کی انتہا نہ رہی کہ شہر میں درجنوں غیر ملکی ایجنٹوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی میرے پیچھے نہیں آرہا تھا۔
مجبوراً میں اسی ہوٹل میں پہنچا جہاں گزشتہ شام جیمز بونڈ کو دیکھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی چاہیے لیکن وہ کئی گھنٹے بیٹھا شراب پیتا رہا اور آخر ویٹرز نے اسے اٹھاکر اس کے کمرے میں پہنچایا۔
میں ہوٹل پہنچا تو جیمز بونڈ ماسک لگائے لابی میں جولیانا فٹزواٹر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ میں ایک ایسی میز پر جابیٹھا جو ستون کی آڑ میں تھی لیکن میں ان دونوں پر نظر رکھ سکتا تھا۔
جیمز بونڈ نے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی سرخ ٹائی اور جیب میں لال رومال دور سے نظر آرہے تھے۔ جولیانا نے سیاہ اسکرٹ اور شربتی بلاؤز پہنا ہوا تھا اور بے حد دلکش دکھائی دے رہی تھی۔
میں نے یاد کیا کہ اے حمید کی کسی جاسوسی سیریز کا ہیرو کچھ سوچتے ہوئے ہونٹ رگڑتا تھا۔ میں نے بھی ہونٹ رگڑنا شروع کیا تاکہ کوئی دیکھے تو صحافی کے بجائے سراغ رساں سمجھے۔ آج کل صحافیوں کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔
میں سوچ رہا تھا کہ جیمز بونڈ جولیانا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہا ہے یا جولیانا ایکسٹو کی ہدایت پر جیمز بونڈ کو اپنے جال میں پھنسا رہی ہے۔
اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا اور میں کرسی سے گرتے گرتے بچا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے؟” میں چیخا۔
"بھائی جان یہ بدتمیزی نہیں میرا ہاتھ ہے۔” ستون کی آڑ سے علی عمران نے نمودار ہوکر دانت نکالے۔ اس نے لال پینٹ، جامنی شرٹ اور اس پر پیلے رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ پھولدار ٹائی میں سرکس سے بھاگا ہوا جوکر لگ رہا تھا۔ وہ اجازت لیے بغیر سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"دیکھو مسٹر! میں تمھاری ایک حرکت معاف کرچکا ہوں۔ اگر باز نہ آئے تو سیدھا نائن ون ون پر کال کروں گا۔ یہ امریکہ ہے۔ یہاں کی پولیس پاکیشیا جیسی نہیں کہ آئی ایس آئی کا نام سن کر گھبرا جائے۔” میں نے بارعب آواز میں کہا۔
وہ ایک دم خوفزدہ نظر آںے لگا۔ میں جانتا تھا کہ وہ مکاری کررہا ہے اس لیے منہ پھیر کے جولیانا کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ میری نظر کدھر ہے۔
"اتنی محبت سے کسے دیکھ رہے ہیں؟” اس کے چہرے پر احمقانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
"آپ کے بہنوئی جیمز بونڈ کو۔ جو آپ کے پھینکے ہوئے کانٹے کو نگلنے کے لیے بے چین ہے۔” میں نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
علی عمران نے دانت نکال کر آںکھ ماری اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر ایسے سیٹی بجانے لگا جیسے ساری دنیا کے کام نمٹاکر فرصت میسر آئی ہو۔

یہ بھی پڑھیے: واشنگٹن کا ہنگامہ (2)۔۔۔ مبشرعلی زیدی

About The Author