میرے پانچ سالہ بیٹے نے ٹی وی ہیڈ لائنز دیکھ کر خوف زدہ آنکھوں کے ساتھ سوال کیا، ماں! کیا کورونا بہت خطرناک ہے؟ میں نے رٹے ہوئے طوطوں کی طرح گذشتہ دو ماہ کے دوران ازبر کیے ہوئے جواب دہرانے شروع کر دیے۔
اسے سمجھایا کہ کورونا جان لیوا ہے، سماجی دوری کے فوائد اور بار بار ہاتھ دھونا وغیرہ۔ مگرصاحبزادے نے قطعی درگزر کر کے روکا اور پوچھا کہ کیا ’اتغور‘ یعنی ارطغرل کورونا کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
ہکا بکا میں نے اُس کے چہرے کی جانب غور سے دیکھا اور کوشش کی جواب دوں کہ پاکستان میں تو ایک نہیں کئی ارطغرل کورونا کے سامنے آنکھیں کھول کر کھڑے ہیں تاہم میں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
کیا خوب ہے جناب قوم کورونا سے نمٹ رہی ہے ارطغرل دیکھ کر۔۔۔ اور ارطغرل کورونا کو اجازت دے رہا ہے کہ وہ پوری طرح اپنا زور آزما لے۔ کسی سے شکوہ کیا کرنا ہے قوم کو کورونا کے آگے پھینک دیا گیا ہے اور معلوم نہیں کہ بچانے والا کون ہے۔
ارطغرل وفاقی حکومت ہے جو پہلے دن سے کورونا سے لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے کا حکم دے رہی ہے یا قومی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی جو فیصلوں پر عملدرآمد کروا رہی ہے۔
ارطغرل سپریم کورٹ ہے جسے عید کی شاپنگ سے محروم رہ جانے والی قوم کی فکر ہے یا ہمارے دانشور میڈیا کے امام جو یہ سمجھتے ہیں کہ دکانیں کھلنے اور شاپنگ مال بند رہنے سے ملک اور قوم کا کتنا نقصان ہو جائے گا۔.
اگر کل کلاں وہ غریب عوام جن کے فاقوں کے ڈر سے آپ نے لاک ڈاؤن کھول دیا کورونا کے ہاتھوں مر گئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا وزیراعظم ذمہ داری لیں گے؟ این سی او سی جس میں عسکری قیادت بھی موجود ہے لیکن عوام کو دستیاب نہیں یا سپریم کورٹ جس سے سوال پوچھنے کی جسارت کم از کم ہم میں تو بالکل نہیں
فیصلے ایک ہی جگہ ہو رہے ہیں لیکن تین شاخہ احکامات نے کنفیوژن پھیلا رکھی ہے۔ وہ سب لوگ جو بھلے میڈیا میں ہیں یا سیاست میں، پارلیمان میں ہیں یا عدالتوں میں، حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، جو بھی لاک ڈاؤن کی مخالفت کرے گا معتوب ٹھہرے گا۔
شعور کس چڑیا کا نام ہے، دلیل کس بلبل کا اور تحمل کس طوطے کا۔ نہ تو ہمیں اس کی فکر ہے نہ پرواہ۔
جس طرح اور جس طریقے سے کورونا وائرس کو پھیلانے کا انتظام و انصرام کیا جا رہا ہے، جس طرح وائرس کے آگے غریب عوام کو پھینکا جا رہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام حکومت ہلا رہا ہے۔۔۔ وہی۔۔۔ ہے۔
خیر ہمارے منھ میں خاک کہ ہم ایک دور اندیش اور صاحب ادراک ارطغرل کے فیصلوں کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔ نہ تو ہمارے پاس وہ ذہن ہے جو اُن تک پہنچ سکے نہ ہی وہ دور اندیشی۔
’کورونا تھا نہیں لایا گیا‘، ’کورونا پھیلا نہیں پھیلایا گیا‘، ’کورونا آیا نہیں دعوت پر بلایا گیا‘ جیسی سازشی تھیوریوں سے ہمارا کوئی سروکار نہیں مگر اتنا سوال تو بنتا ہے کہ جناب اگر کل کلاں وہ غریب عوام جن کے فاقوں کے ڈر سے آپ نے لاک ڈاؤن کھول دیا کورونا کے ہاتھوں مر گئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟
قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اپنی بساط کے مطابق اپوزیشن نے بہترین تجاویز پیش کیں مگر اُس دن سے اب تک قومی ٹیلی ویژن سکرینوں پر پارلیمان کو ناکام پیش کیا جا رہا ہے
کیا وزیراعظم ذمہ داری لیں گے جو وزیر صحت بھی ہیں مگر عوام اور پارلیمان کو جواب دہ نہیں، این سی او سی جس میں عسکری قیادت بھی موجود ہے لیکن عوام کو دستیاب نہیں، سپریم کورٹ جس سے سوال پوچھنے کی جسارت کم از کم ہم میں تو بالکل نہیں۔ جواب کون دے گا؟
سب ادارے سب کچھ کر رہے ہیں، نہیں کر رہے تو عوام کا خیال۔ بے انتہا بڑھتی بیروزگاری، بے قابو ہوتی مہنگائی، بے شمار ہوتے بیرونی قرضے۔ اوپر سے کورونا کے ہاتھوں قتل ہوتے عوام کس ہیجان کو جنم دے سکتے ہیں اس کا اندازہ اور تخمینہ کم از کم ہمارے ملک میں زیر بحث نہیں۔
پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا، قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اپنی بساط کے مطابق اپوزیشن نے بہترین تجاویز پیش کیں مگر اُس دن سے اب تک جس طرح قومی ٹیلی ویژن سکرینوں پر پارلیمان کو ناکام پیش کیا جا رہا ہے اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ ارطغرل کورونا سے نہیں بلکہ عوام سے ضرور لڑے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر