دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا۔۔۔ رؤف لُنڈ

دو دو جمع چار دن پہلے کی بات ھے۔ تھانہ سٹی جام پور پولیس نے اپنی حدود سے باہر قدم رکھا (یہ قدم ظلم کے معمول کا تھا اور تب ظلم کا سکہ چل رہا تھا)

ظلم پھر ظلم ھے بڑھتا ھے تو مٹ جاتا ھے
خون پھر خون ھے ٹپکے گا تو جم جائیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عام لوگ زندہ باد ۔ احتجاج زندہ باد ۔ عوامی طاقت زندہ باد

ملازم حسین مکول شہیدِ تشدد ثابت ۔۔۔ وردی میں ملبوس انسان دِکھتے بھیڑئیے واقعی قصور وار ۔۔۔۔۔۔۔ ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج ۔۔۔۔۔ واہ کیا زبردست بات ھے کہ ” ظلم سہتے ہوئے انسان بُرا لگتا ھے” ۔۔۔۔

دو دو جمع چار دن پہلے کی بات ھے۔ تھانہ سٹی جام پور پولیس نے اپنی حدود سے باہر قدم رکھا (یہ قدم ظلم کے معمول کا تھا اور تب ظلم کا سکہ چل رہا تھا) ۔ مکول حسین مکول اسی ظلم اور تجاوز کا شکار ہوا۔ یہ تجاوز محض معمول کی گرفتاری کا نہیں تھا۔ اس لئے بھی تشدد معمول سے بڑھ کر کیا گیا۔ ملازم حسین کو پہلے سے چلے آئے رواج کے مطابق پائپ کے ذریعہ منہ کے راستے پانی داخل کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس تب غصے میں تھی کیونکہ ان کو دور دراز کا غیر قانونی سفر کر کے بھی من پسند شکار نہیں ملا۔ ہاتھ آیا بھی تو اک غریب ۔ جرم کی دنیا سے دور۔ پیسے ٹکے کی استطاعت سے یکسر خالی۔ ایسے حالات میں پولیس کا غصہ بنتا تو تھا۔ تھانے کے بادشاہ (ایس ایچ او ) اپنے تابع فرمان مصاحبین کے ذریعہ غصہ میں مقتول کے منہ میں پانی تسلسل اور اس خیال سے انڈیلتا رہا کہ پانی معدے میں جائیگا، پیٹ پھولے گا، پیشاب کرنے کی شدت بڑھے گی تو ہماری چوری چُھپ جائے گئی۔ مگر پولیس والوں کی درست تربیت اور مقتول ملازم حسین کے تعاون نہ کرنے کے سبب پائپ کی سہولت سے منہ کے ذریعہ داخل کیا جانے والا پانی مقتول کے پھیپھڑوں چلا گیا۔ تنفس ڈسٹرب ہوا تو پولیس نے بہانہ سمجھا۔ غصہ مزید بڑہا تو پانی مقتول کے عدم تعاون اور پولیس کی شان مطابق زیادہ ڈالا گیا تو خود چراغ ہی بجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب پولیس کے ذمہ داروں کو یہ اطمینان کہ جب بانس ہی نہیں رہا تو بانسری کون بجائے گا؟ چلو ! ” خونِ خاک نشیں ھے تو اسے سپردِ خاک کرو”۔۔۔۔۔ ساری ابتائی کاروائی قاتلوں کے قانونی پہرے میں ہوئی۔ جو زیادہ "چست صحافی ” تھے۔ پولیس کی بیگناھی اور مقتول کے دل کی خرابی کے گولے داغنے لگے کہ گویا مقتول اپنے دل کے ہاتھوں مارا گیا۔ واقعہ جتنا بڑا تھا سناٹے کی گہرائی بھی اتنی زیادہ تھی ۔۔۔۔۔

پھر کسی طرف سے اچانک ابھرنے والی سسکی نے سکوت توڑا تو ساتھ ایک زبان بول پڑی۔ زبان کے بالکل پاس ایک ہاتھ لہرایا۔ دیکھا دیکھی سسکیاں، زبانوں کی آوازیں اور ہاتھوں کی حرکت بڑھنے لگی۔ حیرت اور سکتے احتجاج کا روپ دھارا تو مقتول کے ورثاء، علاقائی اور خاندانی تعلق کے ساتھ ساتھ علاقے کا چئیرمین بھی شامل ہوگیا۔ سوشل میڈیا پہ شور اٹھا۔ بہت سے صحافی اپنے پیشہ ورانہ بھائیوں(صحافیوں) کو چھوڑ کر مقتول سے رشتہ جوڑنے لگ گئے۔ عام لوگ تو ویسے ہی بے چین و بیتاب ہوئے۔ انہوں نے متاثر و مظلوم فریق کا ساتھ دیا۔بات سے بات نکلی تو باتوں میں وزن آگیا۔ اور احتجاج جیت گیا۔۔۔۔۔۔

بے بس و بے کس ملازم حسین مکول بے قصور قرا پایا تو ظلم کو ظلم نہ سمھجنے والے خودسر پولیس والے قاتل ٹھہرے۔ مقدمہ کیا درج ہوا ۔ یہ رٹا رٹایا فقرہ بہت بے وقعت ثابت ہوا کہ ہم عام لوگ کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

اب قاتل انصاف کے کٹہرے میں پیش ہونگے۔۔ لیکن ایک فوری انصاف شہید مقتول کو بھی چاہئیے۔ پولیس کا محکمہ ، صوبے، ڈویزن اور ضلعے کے بڑے بڑے افسران مقتول ملازم حسین کے ورثاء کو فی الفور اس قدر نقد زرِ تشفی دیں ( انسانوں کا معاوضہ کوئی دے ہی نہیں سکتا)۔۔۔۔۔ اور اتنا دیں کہ جتنا ایک پولیس ایس ایچ او کے قتل ہونے پر اس کے ورثاء کو دیا جاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ بال بچے صرف سرکار کے نہیں ہوتے بلکہ سرکار کا شکار ہونے والوں کے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

اے او عام لوگو ! اے او ہم تم میں منقسم لوگو ! اپنی اسی طاقت پہ فخر کرو۔ تسلسل کیساتھ آگے بڑھو ۔ سارے سرکاری سبق بھول کر آزمودہ نعرہ اپناؤ کہ ” طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں”۔ اپنی طاقت کو پہچانو اور اس پر اپنا یقین بڑہاؤ ۔۔۔۔۔ تب جب عام /نچلہ طبقہ جھوم جھوم کے گنگائے گا کہ ” جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں وہ تنکوں سے نہ ٹالے جائینگے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر نہ کسی ظالم کا تاج اس کے سر پر ہوگا اور نہ ہی اس کا تخت زمیں پر۔ بلکہ یہی تاج و تخت سالوں محروم رکھے گئے مظلوم عوام کے قدموں کی ٹھوکروں میں ہونگے۔۔۔۔۔ مجھے مکمل یقین ھے اور تم سب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا ۔

About The Author