ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ کئی سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ گھر کے فون کی گھنٹی بجی تھی۔ موبائل فون کے دور میں کون انسٹالڈ فون پر کال کرتا ہے۔
"معاف کرو بابا!” میں نے ریسیور اٹھاکر کہا۔
میرا خیال تھا کہ کسی نے چندہ مانگنے کے لیے فون کیا ہوگا۔ یہاں امریکہ میں کریڈٹ کارڈ دینے کے لیے اتاؤلے بینک والے بھی کال کرتے رہتے ہیں۔ سروے کرنے والے بھی کبھی کبھی وقت برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عام طور پر یہ کالیں اب موبائل فون پر ہی آتی ہیں۔
"مبشر! میں انسپکٹر جمشید بول رہا ہوں۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔ میں ہکابکا رہ گیا۔
"آں؟ اں۔۔۔ کیا؟ انسپکٹر جمشید؟” میرے منہ سے نکلا۔
"مجھے فاروق نے تمھارا نمبر دیا تھا۔ فاروق کو جانتے ہو نا؟ وہی، جو اشتیاق احمد کے ناولوں کے پبلشر ہیں۔” انسپکٹر جمشید نے بتایا۔
"جی ہاں۔” میں نے جلدی سے کہا، "لیکن آپ امریکہ کب آئے؟”
"میں آج ہی واشنگٹن پہنچا ہوں۔ تم سے ضروری ملاقات کرنی ہے۔” انسپکٹر جمشید نے خوشگوار موڈ میں کہا۔
پھر چونک کر بولے، "تم سے کسی اور نے تو رابطہ نہیں کیا؟ مطلب اس گدھے نے۔۔۔؟”
میں سمجھ گیا کہ وہ گدھا کس کو کہہ رہے ہیں۔ آج کل ایک ہی نام کے لوگوں کو اس شریف جانور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
"ایک گدھا کل سارا دن مجھے واشنگٹن کی سڑکوں پر دوڑاتا پھرا ہے۔ میں اس رنگ برنگ لباس والے احمق کارٹون کو کبھی لفٹ نہ کراتا لیکن اس کے کوٹ کی جیب میں انیس سو ڈیڑھ کا ریوالور تھا۔” میں نے ساری تفصیل بیان کی۔
"اوہو۔ یہ اچھا نہیں ہوا۔” انسپکٹر جمشید کی آواز میں تشویش تھی، "خیر، آج شام کو اگر ہم ملاقات کرلیں تو باقی مسائل حل کرلیں گے۔ تم سے ایک ضروری مشورہ بھی کرنا ہے۔ میرے ساتھ محمود، فاروق اور فرزانہ بھی ہوں گے۔”
فرزانہ کا نام سن کر میرے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔
۔
میں اس فائیو اسٹار ہوٹل کے بار میں آدھے گھنٹے سے بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا۔ شیمپین کا جام میرے سامنے رکھا تھا لیکن میں نے ایک چسکی بھی نہیں لی تھی۔
میں کہانی میں شراب پی سکتا تھا لیکن انسپکٹر جمشید نے کچھ دیر پہلے ہوٹل کی لابی میں ملاقات کے دوران سارا وقت تبلیغ اور میری اصلاح پر صرف کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص دنیا میں شراب نہیں پیے گا، وہ جنت میں جائے گا اور وہاں بہت سی شراب پیے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاسکے کہ وہاں کون سے برینڈز دستیاب ہوں گے۔
مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ محمود اور فاروق کو امریکہ آتے ہی کرونا وائرس لاحق ہوگیا ہے اور وہ قرنطینہ میں پڑے ہیں۔ البتہ فرزانہ ان کے ساتھ آئی تھی لیکن برقع کی وجہ سے میں اس کا چہرہ تک نہیں دیکھ سکا۔
میں نے انسپکٹر جمشید سے پوچھا کہ انھیں مجھ سے کیا ضروری مشورہ کرنا ہے لیکن انھوں نے کہا کہ اس کے لیے ہمیں پروفیسر داؤد کا انتظار کرنا ہوگا جو ایک دو دن میں واشنگٹن پہنچ جائیں گے۔
علی عمران اور اس کی سیکرٹ سروس سے محتاط رہنے کا مشورہ دے کر وہ رخصت ہوئے تو میں بار میں آبیٹھا۔ میرا خیال تھا کہ علی عمران کے ساتھ جوزف بھی آیا ہوگا اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ شراب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جوزف کو شراب کی ایک دو بوتلیں دلواکر بہت سے راز اگلوالوں گا۔
لیکن پھر مجھے علی عمران اور جوزف کا خیال دل سے نکالنا پڑا کیونکہ ایک اور شخص نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
وہ ایک سفید فام تھا۔ طویل قامت، روشن چہرہ، سلیقے سے بنے ہوئے بال، تازہ شیو بنا ہوا، بہترین تراش کا سوٹ اور اٹالین جوتے۔
وہ سیدھا کاؤنٹر کی طرف گیا اور بار ٹینڈر سے فرمائش کی، "ون مارٹینی پلیز۔ شیکن، ناٹ اسٹرڈ۔”
میں اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے اچھل پڑا۔
۔
(اگر دماغ ٹھکانے پر نہ آیا تو باقی آئندہ)
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کا ہنگامہ(1) ۔۔۔مبشر علی زیدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر